سندھ یاترا: حاضری مزارِ قائد پہ


رات کے چار بج رہے تھے۔ میں بڑے انہماک سے آلوچے کے چھلکے اتار رہا تھا۔ پہلے آلوچے کا پھل بھورے رنگ کا تھا اور میٹھا تھا مگر دوسرا سبز رنگ اور بے مزہ تھا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے پہلا آلوچہ صحت مند تھا یا دوسرا، میں تو بھئی یہ تجربہ پہلی دفعہ کر رہا تھا۔ بائیس برس بیت گئے، زندگی میں کبھی آلوچہ نہ کھایا، اس بات کا افسوس تب ہوا جب میرے دوست بلال نے کراچی کی پنجاب کالونی اور دہلی کالونی کی سڑکوں پر موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے اس کے فیوض و برکات گنوائے۔ ہم نے اکٹھے کسٹرڈ ایپل بھی کافی تلاش کیا مگر شاید اس کا موسم نکل چکا تھا بہرحال اسی تلاش کے بہانے کراچی کے بہت سے علاقوں کی سیر ہو گئی۔

پچھلی رات کی بات ہے بلال میاں ہمیں گرینڈ پورٹ لے گئے، انہیں وہاں افغانی چائے والوں کی کشمیری چائے بہت پسند تھی، میرے لیے بھی وہی کہہ ڈالی، ظالم کو نہیں معلوم تھا کہ کشمیری چائے صنف کے اعتبار سے چائے نہیں ہوتی بلکہ گرم شربت ہوتا ہے۔ میں نے فوراً جا کر آرڈر کینسل کرایا اور کڑک چائے کہی۔ سمندر کنارے چائے کا انتظار کرنے لگے۔ دور نیوی والوں کے بحری جہاز لنگرانداز تھے۔ وہیں کہیں ایک سامان بردار ریل بھی آ دھمکی تھی۔

گرینڈ پورٹ کی فوڈ سٹریٹ میں طرح طرح کے کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں نتھنوں کو خوشگوار احساس دلاتی تھیں۔ سطحِ سمندر پہ سفید رنگ کے سمندری پرندے اٹکھیلیاں کرتے بڑے معصوم دِکھتے تھے۔ ہم چائے کی چسکیاں لیتے، سمندر کو تکتے ہلکی پھلکی گپ شپ کرتے رہے۔ یہ میرا سمندر دیکھنے کا پہلا تجربہ تھا۔ سمندر سے اظہارِ وابستگی کا خوب احساس ہوا۔ واپسی پر گورنمنٹ کالج کے کچھ پرانے دوستوں کو ملنے چل دیے، رات وہیں فتوے جاری کرتے گزری۔

وہی محفل گرمائی گئی جیسی اقبال ہاسٹل میں جمتی تھی جس میں مخالف نظریات کے لوگ آمنے سامنے بیٹھ کر دھواں دار بحث کرتے تھے۔ صبح دم مرکز الاولیا عالمی مرکز فیضانِ مدینہ جا پہنچے، نمازِ فجر ادا کی۔ کسی زمانے میں ہم بھی عطار کے پرستار رہے، اس لیے کراچی جاتے ہی وہاں جانے کا قصد بہت پرانا تھا۔ خیر وہاں ایک الگ ہی جہاں آباد تھا جس کی منظر کشی مجھے کافی مہنگی پڑ سکتی ہے۔

یونیورسٹی میں آخری میقات کا آغاز ہوتے ہی دورِ شاہی کے اختتام کا پروانہ دِکھنے لگا تو جھٹ پٹے میں پندرہ دن کے سندھ اور کراچی کے سفر کا ارادہ کیا، اس دورے میں بھوک اور نیند کو ثانوی ترجیح رکھا جبکہ تاریخی، ثقافتی، تہذیبی، وراثتی و مذہبی مقامات کی چھان بین کو مقدم رکھا۔ چند گھنٹوں کی نیند کیے، دن کا کھانا اکثر ترک کیا، بعض دفعہ جلدی میں ناشتہ ادھورا چھوڑا مگر خدا بھلا کرے سندھی بھائیوں اور کراچی والوں کا، انہوں نے کسی طور خاطر مدارت میں کمی نہ کی۔

صبح شام دعوتوں کا اہتمام کیا۔ اندرون سندھ کے دوستوں نے سندھی ٹوپیاں اور اجرکیں تحفہ کیں تو اہلیانِ کراچی نے ڈھیروں کتابیں اور رسالے و جریدے عنایت کیے۔ کراچی میں ابتدائی دو دن ادب پروری و کتاب دوستی کے نام کیے۔ سندھ گورنر ہاؤس میں منعقدہ ادب فیسٹیول میں شرکت کی۔ اردو پوائنٹ کے لیے پروگرام ریکارڈ کیے۔ ڈاکٹر عالیہ امام، حسینہ معین، طلعت حسین، افضال احمد سید، فرنود عالم، عارفہ سید، انور سِن رائے، ڈاکٹر آصف فرخی جیسے معتبر کلاکاروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔

یہ تیسرا دن کراچی گھومنے اور اس کے تاریخی و قدیمی مقامات کی جانکاری کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ تھوڑا سا توقف کرتے ہی دن تین بجے پھر نکل پڑے۔ بلال بھائی نے کمال محبت سے ہمیں ایک ہی دن میں کئی اہم مقامات دکھائے، تصویریں بنائیں۔ ایک واقعہ بڑا عجب پیش آیا، ایک دفعہ نہیں تین چار دفعہ پیش آیا۔ جہاں جائیں وہاں پارکنگ یا جوتے رکھنے کے لیے آگے بڑھیں تو کوئی ملازم ہمیں سلام کر کے آگے بھیج دے، نہ ہمیں ٹکٹ دے نہ ہم سے پیسے لے۔ مجھے یہ معاملہ کھٹکا، اگلی باری کان دھرے، مزارِ قائد اترتے ہی ایک مدھم سے آواز آئی ”محکمہ زراعت“۔

او تیری! یہ کیا ہے بھائی؟ بلال میاں گویا ہوئے کہ بھئی یہاں سب چلتا ہے۔ میں بڑا حیران ہوا اور سٹپٹایا بھی، خیر جو بھی ہے ہمیں اس سے کیا لینا دینا، ہم تو ٹھہرے گلی گلی مسافر۔ قائد کا مزار نیلگوں آسمان پر سورج کی چمکدار روشنی میں بڑا دودھیا لگ رہا تھا۔ ایک طرف کو شمیم حنفی کینٹینر پہ چڑھا یومِ یکجہتی کشمیر منا رہا تھا، سامنے اس کے جاہل ہجوم تھا، سڑک جس کے باعث تاحدِ نگاہ بند ہوئی پڑی تھی۔ بلال نے کہا میاں اس سے پہلے کہ میوزیم بند ہو پہلے جا کر قائد کے زیرِ استعمال اشیا دیکھ لینی چاہییں۔

ہم چل پڑے۔ ایک طرف کو رولز رائس اور نجانے ایک دوسری لگژری گاڑی کھڑی تھیں۔ آگے نکلے تو قائد کا پسندیدہ پام کے درختوں کے ڈیزائن والا ڈِنر سیٹ ڈائننگ ٹیبل پر لگا ہوا تھا کہ گویا ابھی جناح آتے ہوں گے۔ دوسری طرف ان کے بے شمار جوتے، ٹائیاں، سوٹ، طرح طرح کی ہوزری اور انگریزی لباس کے دیگر لوازمات دھرے پڑے تھے۔ ایک شیشے میں ان کی شان میں اردو، انگریزی اور ہندی میں لکھے گئے قصیدے اور سپاس نامے رکھے تھے۔

ان کے رہائشی کمرے کا فرنیچر اور دفترِ وکالت کا سامان ترتیب سے سجایا گیا تھا۔ الغرض یہ کہ آج تک ان کی نوابی کے قصے تو بہت سنے تھے مگر ان کی زیرِ استعمال چیزیں دیکھ کر واقعی بہت مرعوب ہوا۔ قبلہ بلئیرڈ اور گالف بڑے شوق سے کھیلتے تھے اور ان کی استعمال کردہ تمام گالف اسٹکز اور گیندیں برطانیہ سے منگوائی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ہی ہم ان کے شارعِ فیصل پر آواری ہوٹل اور فرائیر ہال کے درمیان واقع گھر سے ہو کر آئے تھے جو انہوں نے 1946 ء میں خریدا تھا۔

بھائی دوستو وہ گھر نہیں محل تھا۔ قدیم انگریزی دور کا پتھر سے بنا کنالوں رقبے پہ پھیلا بلند و بالا بنگلہ جس کی شان بیان کرنے کو یہی کافی ہے کہ دیکھنے والا ورطہ حیرت میں مبتلا ہوا جاتا ہے اور اپنی انگلیاں چبا بیٹھتا ہے۔ بہرکیف میوزم دیکھنے کے بعد فاتحہ خوانی کو چل پڑے، رستے میں کچھ قبریں دیکھیں، وہ سردار عبدالرب نشتر، لیاقت علی خان و بیگم رعنا لیاقت اور فاطمہ جناح کی تھیں۔ باقیوں کے لیے تو میں قل ہواللہ پڑھتا گیا مگر فاطمہ جی کی مرقد پر پہنچتے ہی بیٹھ گیا۔

میرے خیال میں فوراً 1967 ء کی وہ مقتل گاہ گھوم گئی جس کے شواہد سانحہ ساہیوال کی طرح بہت جلد مٹا دیے گئے۔ کچھ کہے، پڑھے بغیر قائد کی طرف بڑھنے لگے۔ ایک جمِ غفیر نے جنگلے کو گھیر رکھا تھا۔ ہر کوئی نفسا نفسی کے عالم میں تھا، کوئی جنگلے کے ساتھ تصویریں بنوا رہا تھا تو کوئی وہاں کھڑے پہرے داروں کے ساتھ، کوئی وہاں چین کے 2016 ء میں تحفہ کیے فانوس کی طرف متوجہ تھا تو کوئی اس سارے رچائے گئے ڈرامے کا سٹیج اپنے تخیل میں دیکھ رہا تھا۔

اچانک باہر کسی کے دھاڑنے کی آوازیں آنے لگیں، بھاگم بھاگ باہر آیا تو کیا دیکھا کچھ لوگ سخت جوتے پہنے (حالانکہ عام لوگ اپنے جوتے مزار کی حدود سے کوسوں دور اتار آتے ہیں ) قائد کے پجاریوں کو پیچھے دھکیل رہے ہیں اور رستہ صاف کر رہے ہیں، اتنے میں ایک چبوترے پر سے ایک اور جوتے مارتا دستہ چابک دستی سے آیا، جھنڈا تہہ کیا اور سلامی پیش کی۔ عوام اس جذباتی منظر کی ویڈیوز بنا رہے تھے۔ دور پیچھے حبس کا مارا قائدِ اعظم، اکبر کا مارا شہیدِ ملت اور کسی نامعلوم کی ماری مادرِ ملت خاموش تھے۔ مجھ میں وہاں مزید کھڑے رہنے کی سکت نہ رہی۔ ہولے سے زیرِ لب بڑبڑایا کہ ”جیسی کرنی ویسی بھرنی“ اور قائد کو سلام کیے بغیر سیڑھیاں اتر آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).