مغرب اور مشرق کے بھیڑیے


سرحدی علاقے کی انتہائی سرد اور خوفناک رات تھی اور اندھیرے میں تیز ہوا کے زناٹوں کے ساتھ، بیحد پراسرار آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہر طرف چڑیلیں دوڑ رہی ہوں۔ ایسے خوف کی حالت میں مشرق اور مغرب کے دو دشمن ممالک کے وہ دو سپاہی، نفسیاتی طور پر ایک دوسرے کے لئے سہارا بنے ہوئے تھے۔

دونوں دشمن ملکوں کی سرحد پر، کانٹے دار تاروں کی دونوں جانب، اپنے اپنے ملک کے اندر وہ دونوں سپاہی ایک دوسرے کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے تھے۔ اندھیری رات میں پراسراریت کے خوف سے بچنے کے لئے ان دونوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ دشمن ملکوں کے ان دونوں سپاہیوں کی رات کے وقت اپنے اپنے ملک کی سرحد پر ڈیوٹی تھی۔ دونوں ممالک کی سرحد پر خاردار باڑھ تھی اور وہ دونوں سپاہی اس خاردار باڑھ کے قریب ایک مقرر فاصلے تک چلتے رہتے تھے۔

دونوں ایک دوسرے سے صرف اس لئے نفرت کرتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ملکوں کے سپاہی تھے۔ وہ دونوں کئی راتوں سے اپنے اپنے ملک کی سرحد پر ڈیوٹی کر رہے تھے۔ پرانی سرچ لائٹس کی روشنی میں، قریب سے گذرتے وقت وہ ایک دوسرے کی جانب غصے سے دیکھتے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کی تھی۔ وہ کبھی بھی ایک وقت پر ایک ہی طرف نہیں چلتے تھے۔ ایک جنوب سے شمال کی طرف چلتا تھا تو دوسرا شمال سے جنوب کی کی جانب جاتا تھا۔

ان باتوں کے باوجود بھی، اندھیری راتوں میں جب پراسرار اور خوفناک آوازیں سنائی دیتی تھیں تو وہ دوڑتے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے آ کر کھڑے ہوتے تھے۔ سرحد کی دوسری جانب موجود ہونے کے باوجود، کسی انسان کی قریب موجودگی سے وہ دونوں اپنے اپنے خوف پر قابو پا لیتے تھے۔ خوف کی حالت میں دونوں ایک دوسرے سے بات کرنے کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود آپس میں بات نہیں کرتے تھے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو ڈرپوک ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا، کیوں کہ وہ دشمن ملکوں کے سپاہی تھے۔

ویسے تو وہ چند لمحے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو کر، خوف پر قابو پانے کے بعد پھر سے مختلف اطراف میں چلنے لگتے تھے لیکن اس رات زیادہ خوف کی وجہ سے، وہ کافی دیر سے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ بہت دیر کے بعد مغرب کے سپاہی نے خوف میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی خود کو بہادر ثابت کرنے کی غرض سے شمال کی جانب چلنا شروع کیا۔ مشرق کے سپاہی میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ دکھاوے کی خاطر ہی جنوب کی طرف جا سکے، اس لئے اس نے بھی شمال کی جانب چلنا شروع کردیا۔ مغرب کا سپاہی بات سمجھ گیا اور اس نے واپس مڑ کر جنوب کی طرف چلنا شروع کیا تو مشرق کے سپاہی نے بھی ایسا ہی کیا۔

مغرب کے سپاہی نے خود کو زیادہ بہادر ثابت کرنے کی غرض سے، مشرق کے سپاہی کو پشت دے کر اپنے ملک کے سرحدی علاقے میں آگے بڑھنا شروع کیا۔ ابھی وہ تھوڑا سا دور گیا تو ایک بہت پراسرار چیخ سنائی دی اور وہ چونک کر، دوڑتا ہوا واپس آ کر مشرق کے سپاہی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ مشرق کے سپاہی نے پہلی مرتبہ مغرب کے سپاہی سے کہا، “حقیقت یہ ہے کہ آج ہم دونوں کو زیادہ ڈر لگ رہا ہے، اس لئے ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب رہنے پر مجبور ہیں۔” مغرب کے سپاہی کو بات دل سے لگی لیکن وہ خاموش رہا۔

مشرق کے سپاہی نے، مغرب کے سپاہی سے اس کا نام پوچھا۔ مغرب کے سپاہی نے کہا، “میرا نام جوزف ہے۔” مشرق کے سپاہی نے کہا، “میرا نام یوسف ہے۔” جوزف نے کچھ حیرت سے کہا، “ہم دونوں کے نام کچھ ایک جیسے لگ رہے ہیں!” “ہاں، مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔!” یوسف نے جواب دیا۔ جوزف نے پوچھا، “ایسا کیوں ہے؟” “مجھے نہیں معلوم۔۔۔” یوسف نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جوزف نے ایک لمحے کی خاموشی کے بعد کہا، “میں تمہارے سامنے اپنے ملک کی سرحد پر ڈیوٹی کرتے ہوئے اکثر ایک بات سوچتا رہتا ہوں۔۔۔!” “وہ کیا بات ہے؟” یوسف نے پوچھا۔

جوزف بولا، “میں سوچتا رہتا ہوں کہ کبھی تم غصے میں آکر مجھے گولی تو نہیں مار دو گے۔۔۔!” یوسف نے نرمی سے جواب دیا، “نہیں، میں تمہیں کیوں ماروں گا۔ تم نے میرا کیا قصور کیا ہے۔۔۔!” جوزف نے کہا، “صرف اس لئے کہ، تم میرے ملک کے دشمن ملک کے سپاہی ہو۔” یوسف نے کچھ سوچ کر پوچھا، “کیا تم مجھے صرف اس وجہ سے مار سکتے ہو کہ میں تمہارے ملک کے دشمن ملک کا سپاہی ہوں؟” جوزف نے انکار سے سر ہلا کر کہا، “بلکل نہیں، کیونکہ تم نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔”

یوسف نے کچھ سوچ کر پوچھا، “جنگ کیوں لگتی ہے؟” “مجھے نہیں معلوم۔” جوزف نے کہا، ‘”کیا تمہیں معلوم ہے کہ کہ کیوں لگتی ہے جنگ؟” جوزف نے انکار سے گردن ہلا کر کہا، “مجھے بھی نہیں معلوم!” اس سے پہلے کہ یوسف کوئی جواب دے، جوزف نے اچانک یوسف کی طرف گن سیدھی کرکے گولی چلا دی۔ یوسف نے بھی فوری طور پر گن سیدھی کی لیکن اس سے پہلے کہ وہ ٹریگر دبائے، اس کو اپنے پیچھے بھیڑیے کی آواز سنائی دی۔ یوسف نے چونک کر پیچھے دیکھا تو اس سے تھوڑے فاصلے پر خون میں لت پت ایک بھیڑیا تڑپ رہا تھا۔

یوسف نے سرحد کی دوسری جانب کھڑے جوزف کی طرف دیکھ کر کہا، “تمہارا شکریہ کہ تم نے بھیڑیے سے میری جان بچائی، لیکن مجھے معاف کرنا کہ میں نے تمہیں غلط سمجھا اور تمہاری طرف بندوق سیدھی کی!” جوزف نے ٹھنڈی سانس لے جواب دیا، “ہتھیار استعمال کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے۔ ہم دونوں کو، ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔” یوسف نے کچھ سوچ کر کہا، “ایک بات تو مجھے آج سمجھ میں آگئی ہے!”

جوزف نے کچھ حیرت سے پوچھا، “تمہیں کون سی بات سمجھ میں آگئی ہے؟” یوسف نے دونوں ملکوں کی کانٹے دار باڑھ کے قریب آکر کہا، ” یہی۔۔۔ کہ کچھ بھیڑیے ہمیں لڑانے کی کوشش کرتے ہیں!” اچانک ایک بھیانک چیخ سنائی دی تو وہ دونوں بری طرح سے چونک اٹھے۔ جوزف نے لمبی سانس لے کر کہا، “آج مجھے بھی پتہ چل گیا ہے کہ یہ پراسرار اور خوفناک آوازیں بھی دونوں طرف کے ان بھیڑیوں کی ہیں، جو ہمیں ہمیشہ خوف میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔!”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).