عمار علی جان: لاہور کے پروفیسر کی ’ریاستی اداروں کے خلاف احتجاج‘ پر گرفتاری، ضمانت پر رہائی


لاہور

courtesy tabitha spence
لاہور کے ایف سی کالج سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر عمار علی جان

لاہور کے ایف سی کالج سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر عمار علی جان کو سنیچر کی صبح ان کی رہائش گاہ سے پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن ارمان لونی کی ہلاکت پر ہونے والے مظاہرے میں شرکت کرنے پر گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان کی ضمانت منظور کر لی گئی ہے۔

ڈاکٹر عمار علی جان کے فیس بک پر دیے گئے پیغام کے مطابق انھیں ہفتے کے روز صبح چار بجے پولیس نے چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا اور انھیں گلبرگ پولیس سٹیشن میں رکھا تھا۔

ڈاکٹر عمار نے لکھا کہ ان کے خلاف ارمان لونی کی ہلاکت پر پانچ فروری کو ہونے والے مظاہرے میں شرکت کرنے پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔

ڈاکٹر عمار علی جان کے خلاف ایف آئی آر پر تاریخ پانچ فروری کی درج ہے اور اس کے مطابق ان کی قیادت میں لاہور کے لبرٹی چوک پر مظاہرے کیے گئے جس میں ‘ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی اور امن و عامہ میں خلل پیدا کیا گیا جس سے عوام پریشان تھے’ اور ان وجوہات پر ایم پی او 16 اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن ایکٹ 2105 کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔

ڈاکٹر عمار علی جان کی اہلیہ تابیتھا سپینس سے جب بی بی سی کے نامہ نگار عابد حسین نے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ صبح چار بجے پولیس نے گھر پر چھاپہ مارا اور کہا کہ ڈاکٹر عمار کے خلاف ایف آئی آر درج ہے اور انھیں پولیس کے ٹرک میں ڈال کر لے گئے۔

پاکستان

ڈاکٹر عمار علی جان کے خلاف درج کی گئی آیف آئی آر

‘میں نے عمار کے والدین کو فون کر دیا اور ہم بھی گلبرگ پولیس سٹیشن پہنچ گئے۔ وہاں پولیس نے ہمیں کہا کہ آپ اندر انتظار کریں لیکن وہ عمار کو دوسری گاڑی میں بٹھا کر کہیں اور لے گئے اور اُس وقت پولیس سٹیشن میں کوئی بھی شخص نہیں تھا۔ پھر وہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد واپس آئے تو عمار نے بتایا کہ انھیں کسی اور پولیس سٹیشن لے گئے تھے۔’

تابیتھا سپینس کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ عمار کی تلاش میں پورا دن مصروف تھے لیکن کیونکہ انھیں حراست میں لینے کا کوئی موقع نہیں ملا تو صبح کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

‘عمار علی مل ہی نہیں رہے تھے’

دوسری جانب بی بی سی کی نامہ نگار منزہ انوار نے جب گلبرگ پولیس سٹیشن رابطہ کیا تو وہاں موجود نائب محرر کرامت علی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پروفیسر عمار علی جان مظاہرے میں ‘فوج کے خلاف باتیں کر رہے تھے اور سڑک بلاک کر رکھی تھی، اس پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ اس لیے انھیں اٹھایا گیا۔’

ایف آئی آر کٹنے کے چار دن بعد کاروائی اور اس تاخیر کی وجہ جاننے کے سوال پر کرامت علی نے کہا کہ ‘ اتنے دن سے عمار علی مل ہی نہیں رہے تھے۔’

تاہم انھوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ عمار علی جان کو ڈھونڈنے کے لیے تین دن میں کہاں کہاں چھاپے مارے جا رہے تھے اور انھوں نے یہ بھی بتانے سے انکار کیا کہ اب آگے عمار علی جان کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔

البتہ ڈاکٹر عمار کی اہلیہ تابیتھا سپینس کے مطابق عمار اب تھانہ گلبرگ کے ایس ایچ او اظہر نوید کے دفتر میں ہیں اور انھیں اب مزید کاروائی کے لیے عدالت لے جایا جائے گا اور اس سلسلے میں انھوں نے وکلا سے رابطہ کر لیا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے صوبہ بلوچستان کے علاقے لورالائی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن ابراہیم ارمان لونی کی ہلاکت پر پانچ فروری کو ملک بھر میں مظاہروں کی کال دی گئی تھی جس کے اسلام آباد سے بھی تحریک کے کئی اراکین کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔

‘ڈاکٹر عمار تیسری بار زیر عتاب’

گذشتہ ایک سال میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ڈاکٹر عمار علی کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

کیمبرج یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹر عمار علی جان پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ عمرانیات میں بطور استاد مقرر رہے تھے لیکن اپریل 2018 میں انھیں انتظامیہ نے ‘معاہدے کی شرائط پورا نہ کرنے’ پر نوکری سے نکال دیا تھا اور یونی ورسٹی میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔

اس کے چند ماہ بعد نومبر 2018 میں لاہور میں ہونے والے فیض انٹرنیشنل میلے میں بھی عمار علی جان کو پروگرام میں شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل اطلاع دی کہ ‘بیرونی دباؤ کی وجہ سے اب انہیں اس سیشن میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔’

سوشل میڈیا پر ٹرینڈ

ڈاکٹر عمار علی جان کی گرفتار کے بعد صبح سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر ان کا نام ملک کے بڑے ٹرینڈز میں شامل ہے اور بڑی تعداد میں صارفین #ReleaseAmmarAliJan اور #WhereIsAmmarJan کے ہیش ٹیگ سے ٹویٹس کر رہے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے فیس بک پر اپنے پیغام میں عمار علی جان کو حراست میں لیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا اور لکھا کہ ‘کیا ریاستی ادارے سچ اور حق کو اس طریقے سے دبانے میں کامیاب ہو جائینگے ۔؟ کبھی نہیں۔’

https://www.facebook.com/story.php?story_fbid=2032364953527872&id=100002631606029

تجزیہ نگار اور صحافی رضا رومی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ عمار کیمبریج یونی ورسٹی سے پڑھ کے واپس آئے اور انھیں سرکاری یونی ورسٹی سے نکالا گیا اور اب انھیں ایک احتجاج میں شرکت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

ماہر قانون ریما عمر نے بھی اپنی ٹویٹ میں کہا کہ دو دون قبل سپریم کورٹ نے فیض آباد سو موٹو کیس کے فیصلے میں عوام کی جانب سے احتجاج کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے لیکن حکومت ان حقوق کی مسلسل پامالی کیے جا رہی ہے۔

لاہور کی لمز یونی ورسٹی سے منسلک پروفیسر عمیر جاوید نے بھی ٹویٹ میں ڈاکٹر عمار علی جان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘ہمیشہ کمزور اور مظلوم طبقے کا ساتھ دیتے ہیں اور ریاست کی جانب سے انھیں حراست میں لینا انتہائی قبیح عمل ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی قسم کے احتجاج کو برداشت نہیں کر سکتے۔’

بعد ازاں عمیر جاوید نے عدالتی کاروائی میں عمار جان کی ضمانت پر رہائی کے بعد ان کی تصویر بھی ٹوئٹر پر جاری کی۔

صحافی کی گرفتاری؟

عمار علی جان کی حراست کے چند گھنٹوں بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی رضوان رضی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام جاری کیا گیا کہ ‘میں دادا جی کا بیٹا لکھ رہا ہوں اور صبح سویرے میرے باپ کو کچھ لوگ گاڑی میں دھکا مار کر اٹھا کے لے گئے ہیں۔’

https://twitter.com/RaziDada/status/1094103638312714240

رضوان رضی کی مبینہ گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر کئی لوگ ان کی حمایت میں پیغامات جاری کر کے ان کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

صحافی طلعت حسین نے اس پر لکھا کہ ’سینئیر صحافی رضوان رضی کو ایف آئی اے نے سائبر کرائم قوانین کے تحت گرفتار کیا ہے اور خوف کے دور کا راج ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp