خیبر پختونخوا کے آئی جی اور چیف سیکرٹری تبدیل


خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں پولیس نظام کے نفاذ پر مبینہ طور پراختلافات کی وجہ سے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو تبدیل کر دیا گیا ہے ۔

اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے نوٹیفیکیشن کے مطابق محمد نعیم خان کو انسپکٹر جنرل پولیس جبکہ گریڈ 21 کے افسر محمد سلیم کو چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا تعینات کر دیا گیا ہے۔

نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کیا گیا ہے جبکہ گریڈ 22 کے افسر نوید کامران بلوچ کو چیف سیکرٹری کے عہدے سے ہٹا کر اسٹبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’پنجاب پولیس کو آپ کی اشد ضرورت ہے‘

قبائلی علاقے میں کارروائی، پولیس اور خاصہ داروں میں جھڑپ

محمد سلیم اس سے پہلے خیبر پختونخوا کے مختلف محکموں کے سیکرٹری کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں پولیس کانظام کیسا ہونے چاہیے اس بارے میں اختلافات پائے جاتے تھے۔ یہاں ایسی اطلاعات ہیں کہ بنیادی طور پر اختیارات کی رسہ کشی جاری تھی کیونکہ بیوروکریسی پولیس کے اختیارات ضم ہونے والے اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو پولیس کے اختیارات دینا چاہتی تھی۔

سابق انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا صلاح الدین خان نے نجی چینل سے گفتگو کی اور پھر بی بی سی کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے قبائلی علاقوں میں عارضی طور پرلیویز ایکٹ کی تجویز دی تھی جس سے ان قبائلی علاقوں میں پہلے سے تعینات لیویز اور خاصہ دار اہلکاروں کے روزگار کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اس کے بعد چھ ماہ میں لیویز اور خاصہ دار اہلکار صوبائی پولیس میں ضم کر دیے جاتے۔

ان کی تجویز کے مطابق قبائلی اضلاع میں فورس کی کمانڈ ضلعی پولیس افسر اور ریجن کی سطح پر ریجنل پولیس افسر یا آر پی اوز نے کرنی تھی۔ ان کے بیان کے مطابق ان کی تجویز سے چیف سیکرٹری بھی متفق تھے لیکن ماتحت بیوروکریسی میں کچھ ارکان اس سے اختلاف رکھتے تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایک موقف یہ بھی سامنے آیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں لیویز اور پولیس کا متوازی نظام لانا سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ روز پہلے پشاور میں منعقد ہونے والی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس معاملے پر پولیس حکام اور اعلی انتظامی افسران کے درمیان اِختلاف سامنے آیا تھا۔

اس سلسلے میں قریباً سات روز پہلے قبائلی علاقوں میں تعینات لیویز اور خاصہ داروں کو صوبائی پولیس میں ضم کرنے کا بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس سے لیویز اور خاصہ دار اہلکاروں کی تنخواہوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو سکے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ سابق انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا ضلاح الدین محسود ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں بھی وہی پولیس کا نظام لانا چاہتے تھے جو ملک کے دیگر اضلاع میں نافذ ہے۔ وہ اس کے سخت خلاف تھے کہ پولیس نظام میں کسی اور نظام کا انضمام کیا جائے جیسے لیویز اور خاصہ دارو کا نظام بھی پولیس کے نظام میں شامل کیا جائے۔

ماتحت بیوروکریسی نے لیویز کے نظام کے تجویز دی تھی اور یہ وہ نظام ہے جو بلوچستان کے بی ایریاز اور سابق ایف آر کے علاقوں میں نافذ تھا۔

یہاں ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ گورنر خیبر پختونخوا کی بھی یہی کوشش رہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں لیویز اور خاصہ دار اہلکار رہیں اور ان علاقوں میں جرگہ کا نظام بھی قائم رہے۔

ان علاقوں میں قبائلی رہنماؤں کا بھی یہی مطالبہ رہا ہے کہ جرگہ کا نظام قائم رہے اور قبائلی علاقوں کی خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی ضرورت نہیں ہے۔

قبائلی علاقوں کے خیبر پختوخوا میں انضمام سے پہلے گورنر خیبر پختونخوا وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے ان قبائلی علاقوں کو چیف ایگزیکٹو سمجھا جاتاتھا جہاں فاٹا سیکریٹیریٹ اور پولیٹکل ایجنٹ گورنر کے سامنے پیش ہوتے تھے۔ انضمام کے بعد آئینی طور پر وزیر اعلی خیبر پختونخوا اب ان تمام علاقوں کا چیف ایگزیکٹو ہے اور گورنر کے اختیارات پہلے کی نسبت کم ہو گئے ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp