غریب کا کام تو بس صبر کرنا ہے


مولانا جلال الدین رومی کے مطابق، اپنا دل اس وقت تک توڑتے رہو جب تک یہ کھل نا جائے۔

غریب بچے کے صبر کا امتحان تب شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر پرانا یونیفارم پہن کر مٹی سے آلودہ جوتوں کے ساتھ پہلے دن اسکول پہنچتا ہے اور دیکھتا ہے کہ باقی بچے تو اپنے باپ کی بڑی بڑی گاڑیوں سے اتر کر نئے یونیفارم پہن کر چمکتے ہوئے جوتے کے ساتھ سکول تشریف لارہے ہیں۔ مگر غریب کا بچہ گھر آکر اپنے والدین سے شکوہ نہیں کرتا کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ غریب کا کام تو صرف صبر کرنا ہے۔

وہ بچہ جب بیمار ہوتا ہے تو سرکاری ہسپتال کی قطاروں میں اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر اپنے نمبر کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ جب اس غریب کے بچے کو اوڑھنے کے لیے کپڑے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر بڑے بڑے بازاروں سے گزرتا ہوا لنڈا بازار پہنچ جاتا ہے جہاں بڑے بڑے لوگوں کے استعمال شدہ کپڑے کم قیمت پر مل رہے ہوتے ہیں اور غریب صبر شکر کرتے ہوئے وہ کپڑے پہن لیتا ہے۔ کیونکہ غریب کا کام تو صرف صبر کرنا ہوتا ہے۔

غریب کا بچہ بھوک لگنے کی صورت میں بڑے بڑے ریسٹورینٹ کے باہر لگے ٹھیلے جہاں سے انڈے والا برگر کھا کر صبر شکر کر لیتا ہے۔ جبکہ وہ غریب معصوم یہ بھی جانتا ہے کہ جتنا غلیظ اتنا لذیز مگر ساتھ میں یہ بھی جانتا ہے کہ غریب کا کام تو صرف صبر کرنا ہوتا ہے۔

جب اس غریب کے بچے کا پھل کھانے کو جی چاہتا ہے تو اپنے غریب باپ کی انگلی پکڑ کر پھل فروشوں کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ پھل فروش غریب کی شکل دیکھ کر سڑے ہوئے پھل نکال کر کم قیمت میں فروخت کر دیتا ہے اور غریب کا بچہ صبر شکر کرتے ہوئے اس پھل کو بھی کھا لیتا ہے کیونکہ غریب کا کام تو صبر کرنا ہوتا ہے۔

غریب کا صبر کرنا اس لیے مکمن تھا کیونکہ یہ بات غریب کے والدین بچپن سے ہی اپنے بچے کو سمجھا چکے تھے ”بیٹا صبر کرنے عادت اپنا لو کیونکہ یہ سنت بھی ہے“۔ کیونکہ والدین جانتے ہیں کہ اگر ان کا بچہ صبر کی عادت نہیں اپناتا تو شاید وہ سڑ سڑ کر کسی نالے میں کود کر خود خوشی کرلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).