آزادی صحافت سے عورتوں کے حقوق کی جدوجہد تک: مہناز رحمن سے ایک گفتگو


عورت فاؤنڈیشن کیا ہے؟

عورت فاونڈیشن ایک قومی غیر منافع بخش غیر سرکاری تنظیم ہے۔ 1986 میں قائم ہونے والی اس آرگنائزیشن کے بانیوں میں نمایاں نام شہلا ضیا (مرحومہ) اور نگار احمد کا ہے۔ اس کے قیام کا مقصد ملکی سطح پر ہر طبوے میں بالخصوص پسماندہ اور مظلوم خواتین میں آگہی پھیلانا ہے۔

فاؤنڈیشن کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہے جب کہ پانچ دفاتر علاقائی اور صوبائی سطح پہ کراچی، پشاور، لاہور، کوئٹہ اور گلگت میں کام کر رہے ہیں جن کے زیر اہتمام کئی ترقیاتی منصوبوں پر کام مکمل ہوا۔ اور کئی منصوبوں پہ مکمل کام جاری ہے۔ تنظیم کی منظم طاقت نے ایوانِ بالا میں اپنی آواز کو پہنچایا اور عورتوں کے لئے اہم قانون پاس کروائے۔ عورت فاؤنڈیشن کی سالانہ تحقیقاتی رپورٹ بھی شائع ہوتی ہے کہ جس میں ملکی پیمانے پر ہونے والے جرائم خصوصا عورتوں کے حوالے سے مثلا کاروکاری، تیزاب پھینکنے کی وارداتیں، جنسی آبروریزی اور گھریلو تشدد کے اعدادو شمار فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس طرح سے عورت فاؤنڈیشن ملک کا ایک مستد اور اہم ادارہ تصور کی جاتی ہے۔

میرے ہاں زندگی انسانوں اور خوابوں کا ایک سلسلہ رہی ہے۔ ایک افسانے کے بعد دوسرا افسانہ اور ایک خواب کے بعد دوسرا خواب۔

حضرت داتا گنج بخش نے کہا تھا۔ ”اپنے آپ کو جاننا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ “

۔ ”میری ہلاکت کی ابتدا ہو چکی ہے۔ کیونکہ میرے یہاں خود آگہی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اور جو کچھ میں جان چکی ہوں وہ مجھے ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ مجھ سے توقع کی جاتی ہے کہ میں عام لڑکیوں کی طرح زندگی بسر کر ڈالوں۔ میرے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ مجھ پر بھی سقراط کی طرح تمام دانشمندوں اور اہلِ ہنر کی دانش اور ہنر مندی کے بھید آشکار ہو چکے ہیں۔ “ ( 1972 میں ماہنامہ حرم میں چھپنے والی مہناز رحمن کی تحریر ”حرفِ بے اختیار“ سے اقتباس)

کم عمری سے ہی خود آگہی کے عذاب جھیلنے والی حساس مہناز اپنے شعور اور خوابوں کے ساتھ مسلسل سفر میں ہے۔ ایم اے اکنامکس کے بعد صحافت سے ناطہ جڑنے، پاؤلا، چرچ ورلڈ سروس جیسے اداروں سے وابستگی کے بعد آج وہ ملک کے فعال اور مثالی ادارے ”عورت فاؤنڈیشن“ (کراچی، سندھ) کی ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اور پوری جانفشانی اور سچائی کے ساتھ نہ صرف عورتوں بلکہ ملکی سطح پر درپیش سماجی اور سیاسی مسائل سے جڑی ہوئی ہیں۔

مہناز سے میری پہلی ملاقات بس ایک اتفاق ہی جانیے کہ جب ایک دن میں اپنی محلے کی دوست کی نئی نویلی بھابی کو دیکھنے کے شوق میں اس کے گھر گئی تو وہاں دلہن کی ایک دوست ”مہناز قریشی“ سے تعارف ہوا جب معلوم ہوا کہ ان کا تعلق صحافت سے ہے تو میرے لیے یہ مسرت شدید تھی کہ میری ایک افسانہ نگار اور صحافی سے بالمشافہ ملاقات ہو رہی ہے۔ وہ سال غالبا 70 کی دھائی کے ابتدائی سال تھے۔ اس ملاقات کے بعد میرا دوسرا سابقہ ان سے 70 کی دھائی کے آخری برسوں میں ہوا۔ اب میں کراچی یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ مہناز اس زمانے میں لالہ رخ اور نسرین زہرہ کے ساتھ محنت کش عورتوں کے لیے ”آدھی دنیا“ نکال رہی تھیں۔ اس وقت وہ مہناز رحمن تھیں اور ایک بچی تابندہ (فے فے ) کی ماں بھی تھیں۔

مہناز اپنے محبتی، مدلل لہجہ میں نرمی سے گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف آپ کو قائل کر لیتی ہیں بلکہ اپنا بھی لیتی ہیں۔ اور یہی تو ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔ وہ ترقی پسند انداز فکر رکھتی ہیں۔ اور عورتوں کے حقوق اور بیداری کے مسائل کے علاوہ ملک کو درپیش مسائل پرگہری نظر رکھتی ہیں اور نڈر انداز میں سالہا سال سے نا انصافی اور ظلم و زیادتی کو چیلنج بھی کرتی رہی ہیں۔

اس کے بعد زندگی کی مصروفیات اور امریکہ ہجرت کے باعث جولائی 2013 میں پاکستان میں میری کچھ ملاقاتیں ان سے رہیں اور یہ گفتگو ان کے دفتر عورت فاؤنڈیشن کے کمرے میں ہوئی۔ جو قارئین کے مطالعہ کی نذر ہے۔

مہناز اپنی ابتدائی زندگی کے متعلق کچھ بتائیں اورپھر اس سطح پر پہنچنے والی جدوجہد کا بھی ذکر کریں؟

ہمارے اس سوال پر مہناز اپنے مخصوص نرم لہجے میں گویا ہوئیں۔

” مجھے بچپن سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں اپنی لائبریری سے کتابیں لاتی تھی اور ہم سب بہن بھائی پڑھتے۔ میں چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ امی امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آئی تھیں۔ ان کا تعلق کشمیر سے تھا۔ والدہ نے میٹرک کیا تھا اور لکھنے پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھتی تھیں۔ رسالہ“ حرم ”میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے چھپتی تھیں۔ میرا بچپن لاہور اور لائلپور (فیصل آباد) میں گزرا۔ ہمارے والد کوہِ نور ٹیکسٹائل مل میں سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔

ہم وہیں مل کی قایم کردہ کوہِ نورکالونی میں رہتے تھے اور ”کوہ نور اسکول“ میں پڑھتے تھے۔ جہاں کوالیفائیڈ عملہ کام کرتا تھا۔ اسی زمانے میں امی رسالہ ”حرم“ (جسے ظہیرہ بدر نکالتی تھیں ) کے لئے لکھا کرتی تھیں۔ رسالے میں میری فرمائش پر انہوں نے بچوں کا صفحہ بھی نکالنا شروع کیا۔ میں نے پہلی کہانی بچوں کے صفحہ کے لیے لکھی۔ جو لاہور چھپنے کے لئے بھیج دی، کہانی چھپ گئی۔ بعد کے سالوں میں نویں دسویں جماعت سے ”حریت“ اخبار کے لیے لکھنا شروع کیا۔

صفحہ کے انچارج اے آر ممتاز تھے۔ (ساتویں جماعت میں ہم کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ ) انٹر سراج الدولہ کالج سے کیا جو راجہ صاحب محمود آباد اور نور الحسن اصفہانی نے کھولا تھا۔ جہاں بڑے جید ادیب اور شاعر پڑھاتے تھے، مثلا اردو مجتبی حسین پڑھاتے، انگریزی عتیق الرحمٰن سے پڑھی اور ہر جمعہ جوش ملیح آبادی بھی پڑھانے آ جاتے تھے۔ غرض ادب سے دلچسپی کی وجہ سے سائنس کے مضامین بدل کر آرٹس کی طرف مائل ہوئے۔ اس طرح بی اے اردو ایڈوانس کے ساتھ کیا۔ پھر اس زمانے میں والد کا تبادلہ شکارپور ہو گیا جہاں کے زبیدہ کالج (حیدر آباد) کے ہوسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور فہمیدہ ریاض، نجمہ ریاض، مہتاب چنہ، شہناز سلیم (بزمِ طیبہ والی) سے دوستیاں ہوئیں۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ اردو کا بہترین ادب مثلا آگ کا دریا، اداس نسلیں، وغیرہ پڑھیں۔

مہناز آپ کا ادبی اور صحافتی سفر کب باقاعدہ طور پر شروع ہو ا؟

سائنس سے آرٹس تو بدل لیا، ارادہ تو صحافت میں ایم اے کا تھا۔ مگر ابا نے کہا۔ ”جرنلزم کی بجائے اکنامکس پڑھو۔ “ ہم نے ان کی بات مان لی اور اکنامکس میں ایم اے کیا۔

اکثر لوگ جانتے ہیں کہ آگہی کے سفر نے انہیں سیاست کی طرف کھینچا لہذا جامعہ کراچی کے زمانے میں انہوں نے 1970 میں شعبہ کی نائب صدر کا الیکشن این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے بھاری اکثریت سے جیتا۔

معاشیات میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد صحافت میں کب کام شروع کیا؟

انہوں نے بتایا کہ کراچی سے مساوات نکلتا تھا۔ جس کے مالک خداکی بستی ناول کے مصنف شوکت صدیقی تھے۔ والدین کو راضی کر کے میں نے ”مساوات“ میں ملازمت کا سلسلہ شروع کیا۔

میں نے سوال کیا تو مساوات کے احفاظ الرحمن سے سلسلہ کب شروع ہوا؟ ”

انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ”ہاں وہی زمانہ تھا۔ ہماری مارچ 1974 میں شادی ہوئی۔ “ (قارئین واضح ہو کہ احفاظ الرحمن کا شمار ملک کے حق گو صحافیوں ہی میں نہیں ہے بلکہ بہترین شاعر، ادیب اور مترجم بھی ہیں اور انہوں نے بچوں کا ادب بھی تخلیق کیا ہے۔ )

” مہناز آپ نے ہم خیال افراد کے ساتھ“ خواتین محاذ ”بھی تو شروع کیا تھا، کچھ اس کے متعلق بھی بتائیں؟ “

خواتین محاذ 1975 میں عمل میں آیا جس کی تشکیل میں مشہور صحافی لالہ رخ حسین، نرگس ہود بھائی اور نسرین زہرہ وغیرہ نے مل کر کام کیا۔ اس محاذ کے تحت ہم عورتوں سے رابطہ کرتے اور ان کے حقوق کی بات کرتے، باوجود اس کے کہ میں تواتر سے اخبارِ خواتین کے لئے لکھ رہی تھی۔ میں نے محنت کش خواتین کے رسالہ ”آدھی دنیا“ کی ادارت لالہ رخ کے ساتھ شروع کر دی۔ ”

غالبا یہی وہ زمانہ تھا کہ میں آپ سے ایک بار پھر رابطے میں آئی تھی؟ ”میں نے انہیں یاد دلایا (مہناز کے ادارتی ذمہ داری چھوڑنے کے بعد یہ کام میں نے سنبھالا تھا۔ ) میں نے سوال کیا“ پھر جب آپ چین بھی چلی گئی تھیں، احفاظ بھائی کی نوکری کے سبب، وہاں کیا کیا؟ ”

میں آٹھ سال یعنی۔ 1985 سے 92 تک چین میں رہی لیکن میرا رشتہ صحافت سے جڑا رہا۔ ”مکتوب چین“ کے عنوان سے ”جنگ“ میں میرے کالمز چھپتے رہے۔ ادبی کام اور تعاون کی وجہ سے چینی حکومت نے مجھے تمغہِ دوستی یعنی ”فرینڈ شپ“ ایوارڈ بھی دیا لیکن ایک بات جو تکلیف دہ ہوئی وہ میرے دماغ میں ٹیومر کا ہونا تھا۔ جس کی کراچی آنے کے بعد تشخیص ہوئی لہذا فورا سرجری بھی ہوئی جو کامیاب رہی۔ چین سے آنے کے بعد پاؤلا (پاکستان ویمن لائیرز ایسوسی ایشن) سے منسلک ہو گئی اور اس ملازمت کے دوران حدود آرڈیننس کے تحت جیل میں جانے والی خواتین کی کہانیاں لکھیں۔

اس وقت کے مشہور میگزین میں یہ کہانیاں قسط وار چھپیں جبکہ ”ڈان“ اخبار میں بھی چھپتی رہیں۔ اس کے علاوہ میری وابستگی ایک این جی او ”پائلر (Piler) “ یعنی (Pakistan Institute of Labour and Education Research) سے بھی تھیں۔ جن کے لئے میں نے ایک کتاب ترجمہ کی۔ اس ملازمت کے بعد میں نے پہلی بار ”عورت فاؤنڈیشن“ میں ملازمت کی جو فل ٹائم تھی۔ تاہم جلد ہی آغا خان یونیورسٹی کے آئی ای ڈی (Institute of Education Development) کو جوائن کیا۔ دو سال تک یہاں کام کرنے کے بعد چرچ ورلڈ سروس میں سات سال کام کیا۔ جس کی وجہ سے باہر کے ممالک جانے کا موقع ملا۔ اقلیتوں اور عورتوں کے مسائل پر یورپی یونین کے ساتھ اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی 2008 میں جنیوا کانفرنس میں شرکت کی۔

2010 میں ایک بار پھر عورت فاؤنڈیشن میں ملازمت اختیار کی۔ پچھلی ملازمتوں مثلا چرچ ورلڈ سروس کے تحت ایسٹرن مینو ٹائٹ یونیورسٹی ہیریسن برگ میں ٹراما، امن جیسے اہم موضوعات پر کافی کورسز کیے اور دیکھا جائے تو سفر بذات خود سیکھنے کاعمل ہے۔ اس طرح 2010 میں عورت فاؤنڈیشن میں ایک بار پھر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دفعہ مزید تجربات کے عمل سے گزرنے کے بعد۔

اتنے ڈھیر سارے مختلف قسم کے تجربات۔ یقینا آپ کے لیے بہت سود مند رہے ہوں گے۔ آپ انہیں عورت فاؤنڈیشن میں کس طرح استعمال کرتی رہی ہوں گی؟ کچھ یہاں ہونے والے کاموں کی تفصیل بھی بتائیں۔ ”میں نے اگلا سوال کیا۔

یہاں ہم عورتوں کے اوپر ہونے والے تشدد ) جو خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ( کے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں۔ ان کے حقوق کے لئے وکالت کرتے ہیں اور بنیادی سطح پر عورتوں میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے ان اہم ترقیاتی منصوبوں میں ہم خیال غیر ملکی تنظیمیں مالی معاونت بھی کرتی ہیں۔ مثلا اس دفعہ پہلی بار یو ایس ایڈ نے جینڈر ایکوٹی کے منصوبہ کے لئے ہماری فنڈنگ کی ہے۔ تاکہ ہم ان آرگنائزیشنز کو گرانٹ دے سکیں جو اس موضوع پر کام کر رہی ہیں۔

مہناز آپ کے خیال میں پاکستانی معاشرے کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟

بات یہ ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم بہت بڑھ گئی ہے۔ کچھ کے پاس بہت کچھ ہے اور کچھ کے پاس کچھ بھی نہیں۔ دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی۔ یہ تضادات بہت اہم ہیں اور بنیادی طور پر مسئلے کی جڑ بھی۔

عورت فاؤنڈیشن کی تشکیل کا پس منظر کیا ہے؟ میں نے انہیں تاریخ میں جھانکنے کا موقع دیا۔

وہ گویا ہوئیں۔ ”اس کی بنیاد کا سال 1985 میں تھا اور بانیوں میں نگار احمد مرحومہ اور شہلا ضیاء (مرحومہ) کا نام آتا ہے کہ جن کا کام آج بھی ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ ضیا الحق کا دور تھا کہ جس میں سیاست کو برا بھلا کہا جارہا تھا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی تھیں۔ تاہم معاشرے میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔ لہذا اکثر تنظیموں کے پاس کام کرنے کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ خود کو غیر سیاسی قرار دیں۔ تاہم یہ اعزاز“ عورت فاؤنڈیشن ”کو ہی جاتا ہے کہ کڑی پابندیوں کے باوجود 1995 میں سیاسی پروگرام شروع کیا۔ ایک لیجسلیٹو واچ پروگرام کے تحت ہم اسمبلیوں میں جاتے اور قانون سازی پر نظر رکھتے اور رازئے دیتے، پھر یہ اعزاز بھی عورت فاؤنڈیشن کو جاتا ہے کہ کسان عورتوں کی کانفرنس منعقد کروائی۔

دنیا میں بالعموم اور تیسری دنیا کے ممالک مثلا پاکستان میں بالخصوص عورتوں کو مسائل کا سامنا ہے۔ مثلا جنس کی بنیاد پر تفریقی رویہ اور تشدد وغیرہ۔ آپ تشدد بالخصوص گھریلو تشدد کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گی؟

پہلی بات یہ ہے کہ عورتوں کی آبادی پچاس فیصد ہے، ضروری ہے کہ اس کو برابری کے حقوق ملیں۔ جس میں روزگار، طبی سہولیات، تعلیم کی فراہمی اور موثر سیاسی نمائندگی کے علاوہ زمین کے مالکانہ حقوق حاصل ہوں لیکن یہ نصف آبادی مختلف قسم کے تشدد مثلا زنا بالجبر، کام پر جنسی ہراسگی، ناموس کے نام پر قتل، کاروکاری وغیرہ سے دوچار رہتی ہے۔ جہاں تک گھریلو تشدد کا تعلق ہے یہ تشدد عموما چھپا لیا جاتا ہے۔ صرف انتہائی شدید نوعیت کے واقعات ہی ہمارے سامنے آتے ہیں۔

یہ تشدد، امیر، غریب ہر طبقہ میں روا ہے، مثلا ہمارے پاس ایک امیر طبقے کی خاتون آئیں جنہیں ان کے میاں نے اتنا مارا کہ پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ ہم نے ان کے شوہر سے رابطہ کیا مگر بعد میں خاتون کے بھائی نے دباؤ ڈالا بہن پر کہ ”تم خاندان کو بدنام کرو گی؟ “ نتیجہ یہ ہوا کہ خاتون نے مزید رابطہ نہیں کیا اور بیک آف ہو گئیں۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ امیر گھرانے کے باپ کا ہے کہ جنہوں نے اپنی تیرہ چودہ سال کی بچی کو ریپ کرنے کی کوشش کی تاہم وہاں بھی خاندانی تصفیہ ہو گیا اور کیس واپس لے لیا گیا۔

مہناز عورت فاؤنڈیشن عورتوں کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہے۔ آپ ادارے کے علاوہ بھی مختلف سطحوں پر عورتوں کے لئے کام کر رہی ہیں، ان کاموں کا خلاصہ عائلی قوانین کے حوالے سے بیان کریں۔ 

مہناز نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں تین اہم قوانین ہماری کامیابی کی دلیل ہیں۔

1۔ دی ایسڈ کنٹرول اینڈ ایسڈ کرائم پروونشن ایکٹ 2010

۔ 2۔ ملازمت کی جگہ پر جنسی ہراسنگی یعنی

(The protection against harass of women at work place act 2010 )

3۔ گھریلو تشدد کے خلاف ایکٹ۔

(Domestic Violence Prevention and Protection act 2013 )

عورت فاؤنڈیشن کا مقصد اپنے پروگراموں کے ذریعے لوگوں کے رویے کو تبدیل کرنا ہے۔ جس کی جڑیں گہری ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ کام آگے بڑھ رہا ہے۔

ہمیں اندازہ ہے کہ آپ کا ادارہ بالخصوص عورتوں کے مسائل کے حوالے سے اہم کام کر رہا ہے لیکن این جی اوز کے متعلق بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں بدگمانیاں پائی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

ہمارے اس چبھتے ہوئے سوال پر وہ گویا ہوئیں۔ شروع میں جو خواتین اس کام میں سامنے آئیں ان کا تعلق اونچے متمول گھرانوں سے تھا لیکن وہ نہ صرف قابل تھیں بلکہ پوری ذہانت سے کام کر رہی تھیں۔ ان کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں سمجھتی ہوں کہ آپ کا کام بولتا ہے۔ اگر آرگنائزیشن کام کرتی ہے تو وہ لوگوں کو نظر آتا ہے۔ ویسے کوئی ادارہ بھی نہ مکمل طور پر اچھا ہوتا ہے نہ برا۔ عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ نگار احمد اور شہلا ضیاء بہت سادہ تھیں، دو تین کرتے اور لٹھے کی سفید شلوار پہن کر کام کیا، میک اپ سے پاک چہرہ اور ہر قسم کی لالچ سے مبرہ، اونچے طبقے میں بھی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں کوئی احساس نہیں۔

تبدیلی کا عمل آخر کس سطح پر زیادہ سود مند ہو سکتا ہے؟ ہم نے آخری سوال پوچھا۔

انہوں نے برجستہ کہا ”یہ عمل ہر سطح پر ہونا چاہیے۔ معیشت، قانون سازی اور سب سے اہم سماجی رویہ، جس کو بدلنے کے لئے مردوں پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر تبدیلی درکار ہے۔ بالخصوص ہمارے لیڈران جو عوام کا درد رکھتے ہوں اور سوچتے ہیں کہ اصل تبدیلی سوچ کی ہوتی ہے۔ جس سے سماج بدلتا ہے۔ مجھ کو آج کی نسل سے امیدیں ہیں، وہ سمجھدار ہے اور ہم سے بہت بہتر انداز میں نوکری کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریوں اور بچوں کو وقت دے رہی ہیں۔ ہم نے ان کے اس جواب کے بعد شکریہ کے ساتھ انٹرویو کا اختتام کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).