بلا امتیاز احتساب، وقت کی ضرورت!


صوبہ پنجاب کی کابینہ میں شامل حکومتی پارٹی تحریک انصاف کے اہم وزیر عبدالعلیم خان کو نیب نے گرفتار کر کے احتساب عدالت سے ان کا نو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔ نیب کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیہ کے مطابق سینئر سوبائی وزیر عبدالعلیم خان کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر حراست میں لیا گیا۔ علیم خان کی گرفتاری سے زیادہ آج کل سوشل میڈیا پر ان کا اپنی وزارت سے مستعفی ہونے کی خبر ٹاپ ٹرینڈ بنی ہوئی ہے جسے سنجیدہ عوامی حلقوں میں ایک اچھی روایت کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں اس روایت کو تقویت دیتے ہوئے ان تمام سیاسی پلرز کو بھی اخلاقی طور اپنے عہدوں سے دستبردار ہو جانا چاہیے جن پر کرپشن و بدعنوانی کا قدغن لگ چکا ہے خواہ وہ پارٹی عہدیدار ہے یا حکومتی بنچ پر بیٹھا ہے۔ ملک میں احتساب کے اداروں کوسابقہ حکومتوں کے ادوار میں انتقامی سیاست کے طور استعمال کیا جاتا رہا ہے اسی لئے ملک میں جاری احتساب کو بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے۔

بد قسمتی سے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ایکدوسرے پر کرپشن و بدعنوانی کے الزامات تو لگائے لیکن ڈیل اور ڈھیل کے ذریعے اپنے اقتدار اور مفادات کا تحفظ کیا۔ اب یہی دونوں پارٹیوں کے گرد جونہی احتساب کا گھیرا تنگ ہوا تو اس احتساب کو انتقام کا نام دیا جانے لگا حکومتوں اور اداروں کو دباؤ میں لا کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ان دونوں پارٹیوں کی پالیسی کا حصہ ہے۔ نیب کی خراب کارکردگی کی ذمہ دار تحریک انصاف نہیں بلکہ ن لیگ ہے سوال یہ ہے میاں نواز شریف تین بار وزارت عظمی کے منصب پر رہے انہوں نے شفاف اور غیرجانبدار احتساب کے لئے کیا کوششیں کیں۔

ماضی کے مقابلے میں اب جو احتساب کا سلسلہ تواتر کے ساتھ شروع ہوا بہت بہتر ہے اور اس احتسابی عمل کو بغیر ڈیل اور ڈھیل کے جاری رہنا چاہیے تاکہ کوئی بھی قومی خزانے اور عوام کے وسائل پر نقب نہ لگا سکے۔ ذرا ان دونوں پارٹیوں کے احتسابی ڈرامے کی تاریخ کی نقاب کشائی کر کے دیکھ لیں نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا کر احتساب شروع کیا لیکن یہ احتساب شفافیت کی بجائے انتقام کا حصہ بن کر رہ گیا۔

1990 ء میں جب سابق صدر مملکت غلام اسحاق خاں نے بے نظیر بھٹو کو حکومت سے بر طرف کر کے ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزام میں نو ریفرنس عدالتوں میں دائر کیے لیکن کیا ہوا 1993 ء میں جب نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو بطور وزیر اسی آصف علی زرداری سے غلام اسحاق خان نے ایوان صدر میں حلف لیا۔ 1996 ء میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کا احتساب شروع کیا اس وقت سیف الرحمن احتساب بیورو کے سربراہ تھے پیپلز پارٹی نے اس احتساب کو اپنے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیا پیپلز پارٹی کے خلاف درجنوں بد عنوانی کے مقدمات بنے آصف علی زرداری گرفتار ہوئے لیکن ان مقدمات کا کچھ نہیں بنا احتسابی کارروائی کا نتیجہ صفر ہی رہا۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک کرپشن و بدعنوانی کے تدارک کے لئے پوڈو ’پراڈا اور ایبڈو سمیت متعدد قوانین بنے لیکن اس کے باوجود اقتدار پر براجمان اور اقتدار کی آس رکھنے والوں کے درمیان بندر بانٹ کا ایک گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے احتساب کے اداروں میں ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ان اداروں کو آزاد اور خودمختار بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ تاثر زائل ہو سکے کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔

اب علیم خان کی گرفتاری پر بھی اپوزیشن اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے کہ یہ گرفتاری محض دکھاوا ہے پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ علیم خان کو دوسرے بڑوں پر ہاتھ ڈالنے کے لئے پکڑا گیا ہے علیمہ خان کی طرح انہیں بھی کلین چٹ مل جائے گی۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما بھی نیب کو مطلوب ہیں جن میں سابق وزیر اعلی کے پی کے پرویز خٹک ’عبدالعلیم خان اور وزیر اعظم کے قریبی دوست زلفی بخاری شامل ہیں علیم خان کی گرفتاری کے بعد اب اس تاثر کی گنجائش تو نظر نہیں آتی کہ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جاری احتساب کی کارروائیوں میں حکومت کا ہاتھ ہے۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی یہ الزامات لگائے گئے ہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کی خواہش پر کیا جارہا ہے حالانکہ ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا کہ ن لیگ کو قانونی حق سے روکا گیا ہو۔ بد قسمتی سے سابقہ حکومتیں اداروں کی بالادستی کے سامنے خود رکاوٹ بنی رہی جس کی وجہ سے ریاستی ادارے مضبوط نہ بن سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی اقتدار کو چھ ماہ کا عرصہ ہو چلا ہے یہ پارٹی تبدیلی کا جو نعرہ لے کر اقتدار میں آئی ہے عوام اس کی جانب ایک امید کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔

ملک میں جو جاندار انداز میں احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے اس کو جاری رکھنے کے لئے موجودہ حکومت کو احتسابی اداروں کو خود مختار بناتے ہوئے بلا امتیاز احتساب کی بنیاد رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بار ہا اس عزم کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ملک میں شفافیت اور احتساب کا نظام چاہتے ہیں ملک کی ترقی و خوشحالی کا راز اسی بات میں ہے کہ ملک کو کرپشن فری بنانے کے لئے بلا خوف و خطر ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف بے دریغ احتساب کیا جائے۔

اکہتر برس کے پاکستان کو کرپشن و بدعنوانی دیمک کی طرح چاٹ چکی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے دعوؤں ’وعدوں اور نعروں کا وقت گزر چکا اب عملی اقدامات سے ہی ہم ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لا سکتے ہیں۔ عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو جن ممالک میں غربت و بیروزگاری‘ افلاس ’بھوک‘ ننگ انتہاؤں کو چھو رہا ہو اس کی بڑی وجہ کرپشن و بدعنوانی ہوتی ہے۔ موجودہ حالات کی ضروریات یکسر بدل چکی ہیں حکومت کو چاہیے کہ لوٹ مار کرکے سرمائے کو ضرب دینے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے عوام کے وسائل اور دولت پر شب خون مار کر سرحد پار کے ممالک کی معشیتوں کو استحکام بخشنے والے بلا شبہ قومی مجرم ہیں اور یہ کسی رعائت کے مستحق نہیں ہیں ملک میں موجود موروثیت اور بادشاہی خود ساختہ نظام کو ختم کر کے جمہوری اقدار اور روایات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ حکومت بلا تفریق انصاف کی فراہمی اور احتساب کرنے میں ناکام اور اس کی تبدیلی کے دعوے ’وعدے اور نعرے روایتی ثابت ہوئے تو پھر نو شتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ مؤرخ ایسی تبدیلی کو تاریخ میں دفن کرنے کے لئے تیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).