فیل کریں مگر پہلے پڑھائیں بھی تو


میری بڑی خوش نصیبی رہی ہے کہ عمر کے ہر حصے میں میری ہر عمر کے لوگوں سے دوستی رہی ہے۔ چھوٹی تھی تو بڑوں سے دوستی رہی اور اب عمر کے اس دور میں بہت چھوٹے اور نوجوانوں بچوں سے دوستی رہتی ہے میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ میں عمر وں کی اس خلیج کو جیسے عام فہم زبان میں جنیریشن گیپ کہا جاتا ہے کبھی اپنے اور اپنے بچوں کے درمیان نہ آنے دوں اور اس کوشش میں اہم کردار میرا تدریسی پیشہ ادا کرتا ہے۔

مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے جو مسئلے مسائل میری بھانجی مجھ سے بیان کرتی ہے یا اس کی پوسٹ جب میں پڑھتی ہوں تو جو باتیں وہ لکھتی ہے اور جن مسئلوں کی طرف وہ نشاندہی کرتی ہے ان ہی مسائل سے گزر کر میں بھی یہاں تک پہنچی ہوں۔ اور آج صرف ایک بات کا ہی ذکر کروں گی۔ حالانکہ یہ بات کرتے ہوئے بہت عجیب لگ رہا ہے۔

اپنے طالبعلموں کو بھری جماعت میں یہ کہہ دینا کہ ان سے ملیے یہ میرے وہ طالبعلم ہیں جو گریجویشن تو کر چکے ہیں مگر میرے پیپر میں ابھی تک پاس نہیں ہوئے۔

ہمارا بھی بڑا واسطہ پڑا ہے ایسے جان لیوا حالات سے ہمارے پروفیسرز ہمیں ایسے ہی ڈرایا کرتے تھے کہ جب امتحان دیں گی تو آپ کی ملاقات ہمارے پرانے طالبعلموں سے ہو گی جو پچھلے چار سال سے ہمارے پیپر میں فیل ہو رہے ہیں۔ اس وقت ہمارا بھی خون خشک ہو جایا کرتا تھا۔ پاسنگ مارکس پر ہی جشن مناتے تھے کہ چلو جان چھوٹی۔

لیکن آج سوچتی ہوں کہ ہمارا دور تو بڑا پرانا تھا جب تیکنیکی معیار اتنا آگے بڑھا ہوا نہیں تھا ہمیں تو بس اسائمنٹ کے بوجھ تلے ہی دبا د یا جاتا تھا۔ یہ کہہ دیا جاتا کہ فلاں اخبار میں اتنی تحریر چھپ جانی چائیے یہ نہیں بتایا جا تا تھا کہ لکھنا کیسے ہے بالفرض ہم اتنے عقل سے پیدل تھے اور کالم نگاری مضمون نگاری سے واقفیت نہیں رکھتے تھے تو کم از کم تکنیکی اعتبار سے یہ چیزیں ہمیں سکھائی تو جا سکتی تھیں۔ میں ابھی ان باتوں کو کرید کرید کر نہیں لکھنا چاہتی صرف ایک چیز میرے ذہن میں آتی ہے کہ جب بیالیس بچوں کے چار سیکشنوں میں سے دس بچے فیل ہو جائیں تو مجھے آگے یہ جواب دینا پڑتا ہے کہ آپ نے کیسا پڑھایا کہ آپ کے مضمون میں بچے فیل ہوگئے۔ خواہ میں لاکھ کہتی رہوں کہ بچے اردو کے مضمون میں دلچسپی نہیں لیتے تو الزام میرے ہی سر آتا ہے کہ دلچسپی پیدا آپ کو ہی کرنا ہے تیکنیکی اعتبار سے آپ کو ہی سکھانا ہے۔

آج اگر آپ انٹرنیٹ سے کچھ سیکھنا چاہیں تو مجال نہیں کہ وہ چیز آپ کو آسان سے آسان تر طریقے سے نہ سیکھنے کو ملے ایسے ایسے طریقے اور تیکنیک ہے جس سے ایک آرٹ میں دلچسپی نہ رکھنے والا بندہ بھی فی الفور اپنے مطلب کا کام کر لیتا ہے۔

ایک طالبعلم تمام مضامین میں مکمل عبور یا دلچسپی نہیں رکھ سکتا کچھ مضامین اس کے لئے غیر دلچسپ بھی ہو سکتے ہیں یا ان مضامین میں اس کو مشکلات درپیش آسکتی ہیں۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایسی مشکلات کا سامنا طالبعلم کو ہورہا ہے تو اساتذہ کا یہاں کیا کردار ہے۔ کیا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ یونیورسٹی لیول اور کالج لیول پر بچوں کی طرح نہیں سکھایا جا سکتا۔

اگر ایک طالبعلم پوری زندگی حساب یا ریاضی میں کمزور رہا اور میڈیکل کالج میں اسٹیٹس کے مضمون میں فیل ہوگیا تو قصور طالبعلم کا ہوگا؟ یا استاد کا؟ یا پھر ایک طالبعلم ابلاغ عامہ میں ماسٹر کررہا ہے رپورٹنگ اس کی فیلڈ ہے اور مضمون نگاری میں فیل ہوجاتا ہے تو قصور کس کا ہے؟ کیا سب قصور طالبعلم کا ہے یا اساتذہ بھی کہیں غلط ہیں۔ فیل کرنا بہت آسان ہے مگر سکھانا ایک مشکل ترین عمل۔

اگر آپ کے طالبعلم چار سال سے آپ کا پیپر دے رہے ہیں تو ایسے طالبعلم کو سکھا نہیں سکتے تو تھوڑی حوصلہ افزائی ہی کر دیں کہ کس صبر اور مشکلات سے گزر کر آپ کے اس پیپر سے نبرد آزما ہے۔ کہیں آپ کے سر پہ یہ تلوار نہ لٹکنے لگے کہ آپ کے اتنے طالبعلم کیوں فیل ہورہے تو پھر آپ کیا کریں گے؟

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).