نیا امتحان۔ حکومت جائے گی یا ممبران اسمبلی؟


حکومت خطرے میں ہے اور وزیراعظم اراکین اسمبلی کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے خوب تگ و دو کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے جہاں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تاریخی اقدامات کیے وہیں ان سے متعدد ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں جن کی وجہ سے اندر ہی اندر لاوہ پکتا رہا جو بالآخر آتش فشاں بن کر نمودار ہوا ہے۔

آزادکشمیر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت 21 جولائی 2016 کے انتخابات کے بعد قائم ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں 49 کے ایوان میں 35 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں جماعت اسلامی کی 2 اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی نے 1 نشست حاصل کی تھی، یوں آزادکشمیر میں کل 49 کے ایوان میں حکمران جماعت کو 38 ممبران کی حمایت حاصل تھی تاہم جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ خالد ابراہیم نے حکمران جماعت سے ناراض ہو کر انتخابات کے فوری بعد اپوزیشن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے پارٹی صدر راجہ فاروق حیدر خان کو آزادکشمیر کا وزیراعظم نامزد کیا اور فیصلہ کیا گیا کہ مختصر کابینہ کے ساتھ حکومت کا نظام چلایا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے شروع میں 9 وزراء بنائے جبکہ وزیراعظم نے پالیسی بیان دیا کہ اگر وزراء کی تعداد 12 سے متجاوزہوئی تو وہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے تاہم بعد ازاں مختلف مراحل میں پارٹی کے ممبران اسمبلی کی جانب سے پریشر آنے کے بعد انہوں نے وزراء کی تعداد بڑھا دی اور اس وقت آزادکشمیر کابینہ میں بشمول وزیراعظم کل 26 ممبران شامل ہیں۔

وزیراعظم پر شروع دن سے یہی الزام عائد کیا جاتا آ رہا ہے کہ وزیراعظم فیصلوں میں کابینہ کو اعتماد میں نہیں لیتے جبکہ وزراء بھی شاکی ہیں کہ وزیراعظم ان کے ماتحت سیکرٹریز کو براہ راست ڈیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے سیکرٹریز وزراء کی بات نہیں سنتے اور عملاً آزادکشمیر میں بیوروکریسی کی حکومت قائم ہے۔ دوسری جانب آزادکشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنان اور رہنماء بھی وزیراعظم سے نالاں ہیں کہ حکومت نے کارکنان کی ایڈجسٹمنٹ نہیں کی اور صوابدیدی عہدوں میں سے بیشتر اب تک خالی پڑے ہیں جس میں چیئرمین احتساب بیورو، ڈپٹی ایڈمنسٹریٹرز، کوارڈنیٹرز اور دیگر اہم عہدے شامل ہیں۔ وزیراعظم نے سیاسی کارکنان میں سے کسی کو اپنا ایڈوائزر نہیں بنایا بلکہ ان غیرمنتخب عہدوں پر بھی ممبران اسمبلی کو بٹھا رکھا ہے۔

مختصر پس منظر کے بعد موجودہ صورتحال پر آئیں تو آزادکشمیر میں حکومتی کشتی میں پہلا سوراخ اس دن ہوا جب سینئر وزیر حکومت چوہدری طارق فاروق نے آزادکشمیر بیوروکریسی اور پولیس میں ہونے والے اعلیٰ سطحی تبادلوں پر الزام لگایا کہ وزیراعظم نے کابینہ سے مشاورت کیے بغیر آمرانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے بیوروکریسی کے تبادلے کیے ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد بیانات کا ہلکا پھلکا سلسلہ اور تجزیے تبصرے جاری تھے جس سے بچنے کے لئے چوہدری طارق فاروق برطانیہ چلے گئے تاکہ حالات ٹھنڈے ہو سکیں۔

برطانیہ میں قیام کے دوران چوہدری طارق فاروق نے ایک انٹرویو میں ایک بار پھر الزام لگایا کہ فاروق حیدر کا طرز عمل جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ ہے اور بیوروکریسی حکومت کر رہی ہے، کارکنان کے ساتھ زیادتیاں زیادہ دیر برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ اپنی نوعیت کے حسب معمول ان بیانات پر بھی حکومت اگر چاہتی تو حالات سازگار رکھ کر معاملات یکسو کر سکتی تھی لیکن وزیراعظم سیکرٹریٹ کے گریڈ 20 کے ڈائریکٹر جنرل ملک ذوالفقار جن کی تعیناتی پر بھی سیاسی کارکنان اور وزراء نے سوالات کھڑے کیے تھے نے رات گئے چوہدری طارق فاروق کے خلاف انتہائی نازیبہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے فیس بک پر کچھ پوسٹیں شیئر کیں جس سے تاثر لیا گیا کہ وزیراعظم اپنے ملازم کے ذریعے لیگی اعلیٰ قیادت کی تذلیل کر رہے ہیں۔

کارکنان جو پہلے سے صورتحال سے دلبرداشتہ تھے بھی سوشل میڈیا پر آ گئے اور صورتحال پر وزیراعظم کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور وزیراعظم سٹاف کے توہین آمیز طرز عمل پر خوب تنقید کی جس کے بعد آزادکشمیر میں سیاسی بھونچال آ گیا اور اب فاروق حیدر حکومت کی کشتی ہچکولے کھاتی نظر آ رہی ہے۔ بزرگ سیاستدان سردار سکندر حیات، سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق اور اسپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر کی صورت میں وزیراعظم مخالف ایک بلاک کھل کر سامنے آ چکا ہے جبکہ وزیراعظم کے ساتھ ابھی تک صرف وزیراطلاعات مشتاق منہاس، وزیر برقیات راجہ نثار اور وزیر بلدیات راجہ نصیر کھل کر سامنے آئے دیگر 20 وزراء کی جانب سے ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے جبکہ ذرائع کے مطابق ان بیس میں سے اکثریت ناراض بلاک کے ساتھ ہے اور ناراض بلاک کو 9 ممبران اسمبلی جو کابینہ میں شامل نہیں ان کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔

نظر یہی آ رہا ہے کہ وزیراعظم کو پارٹی کے ہی ممبران اسمبلی کی اکثریت کی حمایت دستیاب نہیں ہے جبکہ اپوزیشن کے 12 ا راکین اسمبلی اگر ان کے ساتھ مل گئے تو وزیراعظم کے خلاف قرارداد عدم اعتماد اگلے چند دنوں تک لائی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان جو اپنے ہی ایک ڈی جی کی وجہ سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں کی جانب سے اسمبلی توڑنے کی باتیں بھی سامنے آئی ہیں اور امکان ہے کہ وزیراعظم اگر پریشر برداشت نہ کر پائے تو اسمبلی تحلیل کر دیں گے جس کے بعد آزادکشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کے لئے اقتدار تک پہنچنے کا دروازہ کھلنے کا امکان ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی خواہش بھی یہی ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو اور وہ جوڑتوڑ کر کے انتخابات میں پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں اور آزادکشمیر سے مسلم لیگ (ن) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا سکے۔ ہفتے کے روز اچانک آزادکشمیر میں تعینات آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری کے تبادلے نے بھی نئی بحث چھیڑ دی ہے

آزادکشمیر میں سیاسی عدم استحکام کی فضاء کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ مرکز سے میاں شہباز شریف، احسن اقبال، راجہ ظفرالحق مداخلت کر کے دونوں جانب کی بات سنیں اور دونوں دھڑوں کو بٹھا کر صورتحال کا حل نکالیں تاکہ آزادکشمیر میں ان کی جماعت ممکنہ نقصان سے بچ سکے۔ مگر بلوچستان کی مثال سامنے رکھی جائے تو مسلم لیگ ن کی قیادت تبھی جاگتی ہے جب پانی سروں کے اوپر سے گزر چکا ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).