جاگتی رات کا جمال: جمال احسانی


نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک روز یونہی خلق سے کنارہ کیا

20 فروری 1998 ء کو خلق سے کنارہ کرنے والے جمالؔ احسانی کا استعارتی جہان دیکھ کر اُنھیں ”جاگتی رات کا جمال“ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ جمال کے مختصر احوال زندگی کچھ یوں ہیں کہ جمالؔ نے 21 اپریل 1951 ء کو سرگودھا جیسی زرخیززمین پرآنکھ کھولی اوائل عمر میں خاندان کے ساتھ کراچی شہرجا بسے۔ سنتالیس سالہ زندگی میں مختلف ملازمتیں کی، کرایے کے گھر بدلتے کراچی کا قریہ قریہ گھوما، غمِ روزگار میں ملک سے باہر بھی گئے، شادی کی، بچے ہوئے لیکن یہ سب کام جمال کے لیے گویا جُز وقتی مصروفیات تھیں۔ جمال کی زندگی میں کوئی شے جو جمال کے لیے سب سے بڑھ کے توجہ کے قابل تھی، وہ شاعری تھی، اِس کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔

بیشتر شعرا کی سوانحِ حیات پڑھیں تو رتجگوں کی داستانوں سے بھر ی ہیں لیکن جمال ایسا شاعر ہے جِس کی شاعری میں رات جاگتی ہے۔ ذرا جمال کی کتابوں کے نام دیکھیں ستارہ سفر، رات کے جاگے ہوئے، تارے کو مہتاب کیا۔ کلیات جمال کی ورق گردانی کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ جمال نے سارے شعر خا ک سے بے گھر ہو کر ہوا میں معلق کسی ٹوٹے ستارے کے ہمسفر کی کہانی لکھی ہو۔ ستارہ، چراغ، رات، مہتاب، گھر، خاک اور رات ایسے استعارے ہیں جو جمال کی پہچان ہیں۔ ایک واحد، ستارے، کے لفظ کو جمال نے ایسی معنوی وسعت بخشی ہے کہ اِس ایک استعارے پر کئی اک مضامین قلم بند کیے جا سکتے ہیں۔ ذرا اشعار دیکھیے :

یہ کہہ کے اِذنِ سفر دے دیا گیا مجھ کو
کہ تو ستارے کو مہتاب دیکھ سکتا ہے
اُس کی نظر بدلنے سے پہلے کی بات ہے
میں آسمان پر تھا ستارہ زمین پر
ایک ذرے میں نہاں ہے راز دھرتی کا جمالؔ
اک ستارہ ہے کہ جِس میں آسماں پوشیدہ ہے
غروب ہونے سے پہلے ستارہِ سحری
کسی کے صحن کسی کی جبیں پہ اُترے گا
گردش میں آج میرے ستارے ہیں گر تو کیا
تیرا بھی ایک وقت مقرر ضرور ہے

آسمان پر بکھرے ستاروں سے نظر ہٹے تو زمین پر جلتے چراغ جمال کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔ جاگتی رات دیکھنے والے جمال پر رات کے استعارے جب وا ہوتے ہیں تو اُسے چراغ بھی اپنے جیسا با خبر دِیکھائی دیتا ہے۔

بجز چراغ کسی اور کو خبر کیا ہے
یہ شام ہونے سے پہلے ہوا کا ڈر کیا ہے

اور اِس چر اغ پہ منفرد مضمون باندھتے ہوئے جمال کا شعری حُسن ملاحظہ ہو :
چراغ بن کے جلا جِس کے واسطے اِک عمر
چلا گیا وہ ہوا کے سپرد کر کے مجھے
آگاہ میں چراغ جلاتے ہی ہو گیا
دنیا مرے حساب سے بڑھ کر خراب ہے
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

تارے کو مہتاب کرنے والے جمال کے اشعار میں شعری فلک پر چمکتا چاند کچھ ایسا منظر دیتا ہے۔
یہ کہہ کہ چاند لوٹ گیا پھر مدار
اِس سر زمیں پہ کوئی باشندہ تھا مرا
اشارہ تھا ترے دیدار کی منادی کا
فلک پہ چاند کسی کام سے نہیں نکلا
رات تھا، چاند رات تھی اور اُس کا ساتھ تھا
لیکن میں ایک اور ہی منظر سے خوش ہوا

جمال ؔاحسانی کے ہر دوسرے شعر میں رات اپنے متنوع رنگوں کا اظہار کرتی ہے۔ رات میں جاگے ہوئے جمال کی نظر تاروں کو تکتے تکتے مہتاب کرتی ہے تو کبھی کسی چراغ کی جلتی لو میں اُسے ستارہ سفر کرتے دکھائی دیتا ہے۔ چاند، رات، چراغ، ستارہ، گھر، خاک، جمال ؔ کے اشعار میں کہیں کوئی ایک استعارہ شعر کو دو پرت کرتا ہے تو کسی جگہ ایک ہی شعر میں دو یا دو سے زاید استعارے اکٹھے ہو کر معنی کو گہری یکتائی فراہم کرتے ہیں۔

وصل کی رات ستاروں نے بڑی حسرت سے
گاہ دیکھا تھا مجھے، گاہ اُسے دیکھا تھا
رات نے اپنی گواہی کے لیے
اک ستارے کو بچا کے رکھا ہے
اُس نے بھی خاک سے ہی بڑھائی ہے تیرگی
میں نے بھی ہر چراغ جلایا ہے خاک سے
نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے
اگر زمین نے ہلکا سا اِک اشارہ کیا

گھر اور خاک ظاہراً ایسے استعارے ہیں جِن کا رات سے کوئی خاص تعلق نظر نہیں آتا لیکن جمال کے ہاں اِن کی پیشکش ایسی ہے کہ یہ استعارے بھی رات سے جڑے محسوس ہوتے ہیں۔ جمال جب گھر کی بات کرتاہے تو کسی زمین اور خاک سے بچھڑے ایسے وجود کی بات کرتا ہے جو فلک سے ٹوٹے ستارے کی مانند بے گھر ہے جمال خود کو اِس ٹوٹے ستارے کا ہمسفر جانتا ہے۔ شعر دیکھیے :

اک ستارہ مجھ سے مل کر رو پڑا تھا کل جمالؔ
وہ فلک سے اور میں تھا خاک سے بچھڑا ہو

جمال کے متعدد اشعار میں ”بے گھری“ کا جو بیاں ملتا ہے وہ یہی بے گھری ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں
عادتِ خانہ خرابی ہے جمال ؔ
ورنہ اچھا خاصا گھر موجود ہے
سبھی کھڑے تھے شریک زمانہ ہوتے ہوئے
کسی نے روکا نہ گھر سے روانہ ہوتے ہوئے

ایسے ہی کئی استعارتی تحیرات کے علاوہ جمال ؔ کے ہاں کئی رنگ و آہنگ موجود ہیں جو اپنی سطح پر الگ توجہ کے طالب اور الگ مضمون کے متقاضی ہیں۔ فل الوقت جمالؔ احسانی کے یومِ وصال پر یہ تحریر اُن کی نذر۔ آخر میں میں جون ایلیا کی ایک نظم۔ ”ہائے جمال احسانی“ سے اقتباس

تو نے یہ کیا کیا جمال آخر
اِس میں تھا کون سا کمال آخر
تجھ کو یہ کیسے نیند آئی ہے
یہ تو ہم سب سے بے وفائی ہے
آج ہے شاعری اُداس بہت
حُسنِ فن نے شکست کھائی ہے
دِل نے دھڑکن کا ساتھ چھوڑ دیا
شمع نے روشنی گنوائی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).