فروری کا رومانی زکام


ویلینٹائن ڈے آتا تو سال میں ایک بار ہی ہے لیکن فروری کا آدھ مہینہ اس کا بھر پور چرچا بھی رہتا ہے اور تنازعہ بھی۔ قطع نظراس کے کہ یہ اچھا دن ہے کہ برا دن ہے، محبت کا دن ہے کہ بری باتوں کی حوصلہ افزائی کا دن، ہمیں تو بس ایک بات کا یقین ہے کہ سب سے زیادہ خوشی چاکلیٹس، پھولوں اور کارڈز بیچنے والوں کو ہوتی ہے۔ سنگل، شادی شدہ، منگنی شدہ اور نکاح شدہ سب پر اس ماہ مینڈکی کے زکام والی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

ہر سال فروری کے ماہ رائے عا مہ تقسیم ہو جاتی ہے ایک وہ جو گلاب کے پھولوں کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو نہیں کرنا چاہتے۔ چونکہ ہم صرف خاموش تماشائی ہیں اور سب کے غم ویلینٹائن یا خوشی ویلینٹائن میں برابر کے شریک ہیں اس لئے چلیں کچھ اس دن کی مناسبت سے ہلکی پھلکی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ ہم اچھا سمجھیں کہ برا محبت سب کو ہو ہی جاتی ہے۔ اگر کسی شخص کی آپ ایسی بات خوشی خوشی نظر انداز کر دیں جس پر عام حالات میں چپیڑ لگانے کا دل چاہے سمجھ لیں محبت ہو چکی ہے۔ جب چپیڑ کی جگہ مسکرانے کا دل کرے تو پھر کچھ کہنے سننے کا بھی دل کرتا ہے اب اس کے لئے ایک خاص دن مخصوص ہو یا کہ ہر روز کیا فرق پڑتا ہے۔

یہ د یکھنے میں آیا ہے کہ کہنہ مشق خاوند حضرات ایسے ایسے گفٹ اپنی شریک حیات کوویلینٹائن ڈے گفٹ کے نام پر تھما نے میں مہارت رکھتے ہیں جو اچھے خاصے خانگی نقص امن کا سبب بن جاتے ہیں مثال کے طور پر ویکیوم کلینر، کھانا پکانے کی ترکیبوں کی کتاب، وزن گھٹانے کے ٹوٹکوں والی کتاب، استری اور ٹریڈ مل وغیرہ۔

میری ایک دوست جو ڈائجسٹ بہت شوق سے پڑھتی ہیں ان کی شادی ہوئی تو اتفاق سے فروری کا مہینہ تھا ہر طرف سرخ گلابوں اور پیار و محبت کی باتیں ہر ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں مو ضوع گفتگو تھیں۔ خواتین ویسے ہی خوبصورت باتیں سوچنے میں ماہر ہوتی ہیں۔ اپنے نئے نویلے شوہر سے گویا ہوئیں۔ سنئے آج میں نے خواب میں دیکھا آپ مجھے پھول دے رہے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ شوہر نے جو کچھ دیر پہلے ہی ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول ہتھیا کر میچ لگانے میں کامیاب ہوا تھا، بڑے سکون سے نئی نویلی بیوی کو جواب دیا کہ تمہیں تمھارے سوال کا جواب کل جب میں آفس سے آؤ ں گا تو مل جائے گا۔

اگلے روز جب شوہر آفس سے واپس آئے تو چھوٹا سا شاپر چپکے سے ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ شاپر کھولا تو اندر گوبھی کے پھول مسکرا رہے تھے۔ حیران ہو کر شوہر کو دیکھا تو دیکھا تو کہنے لگے بڑے دن سے آلو گوبھی کھانے کا دل چاہ رہا تھا، تم میرا بہت خیال رکھتی ہو اسی لئے تمھارے خواب میں بھی آ گیا۔ آج رات کے کھانے پر پکا لینا۔

اب اپنے تازہ بہ تازہ خواب کی تعبیر تو کیا پتہ چلتی، شادی سے پہلے دیکھے گئے سہانے خوابوں کی تعبیر ضرور پتہ لگ گئی۔ اور انہوں نے آئندہ فروری میں گلاب کے پھولوں کے خواب دیکھنے کا ارادہ بھی ترک کر دیا۔ اب اگلے روز شوہر کو خیال آیا کہ بیوی کو ویلنٹائن ڈے کا سرپرائز دینا چاہیے۔ وہ اپنا بہترین سوٹ پہن کر، پرفیوم لگا کر بیگم کے پاس آئے۔ بڑے پیار سے دھیمے سے گویا ہوئے۔ میں آج تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا، جو تم کہو۔

بیگم نے جو میاں کو اس موڈ میں دیکھا تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچیں لیکن ساتھ ہی اپنی دلی خواہش کا اظہار بھی کر دیا ”آج گرم پانی نہیں آ رہا، ماسی بھی نہیں آئی۔ سارے دن کے برتن نہیں دھلے۔ پلیز آج برتن آپ دھو دیں۔ “ بس یوں ہنسی خوشی دونوں کہانیوں کی دنیا سے باہر نکل آئے۔ یوں بھی شادی شدہ زندگی میں محبت کا اظہار لفظوں سے زیادہ ایک دوسرے کی زندگی سہل بنا کر کیا جاتا ہے۔

کچھ سنگل تو اس قدر سنگل ہوتے ہیں کہ انھیں کیلنڈر بھی خود سے بہتر لگتا ہے کیوں کہ اس میں تین سو پینسٹھ ڈیٹ ہوتی ہیں۔ میری دوست کے شوہر نے اسے بتایا کہ اس کے آفس میں تین کولیگز کو پھولوں کے گلدستے کورئیر سے ملے۔ تینوں کولیگز بڑے ہینڈسم ہیں میری دوست نے جھٹ کہا ”تبھی تو، آپ کو نہیں ملے“۔

ایک صا حب ہر ویلنٹائن ڈ ے پر سو کے قریب کارڈ خرید کر بغیر کچھ لکھے اپنے آ س پڑوس کے گھروں کے دروازوں سے نیچے سرکا دیتے ہیں۔ کیا کریں ان کا سیزن ہی یہی ہے، خیر سے وکیل ہیں اور طلاق کروانے کے ماہر ہیں۔

ایک اور عجیب بات یہ ہے کچھ لوگ اس دن کچھ اس طرح کے جذبات کا اظہارکرتے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی مرضی، ہم کون ہوتے ہیں روکنے والے۔

ﺑﮍﯼ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ
ﻭہی ﺷﻮﺧﯿﺎﮞ، ﻭہی ﺗﺎﺯﮔﯽ
ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ
ﻭہی ﺟﺎﮔﻨﺎ ﺭﺍﺕ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻧﺸﯿﮟ
ﻭہی ﺷﻐﻞِ ﺟﺎﮞ ﻭہی ﺩﻝ
ﻟﮕﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ

ﻭہی ﺧﻮﺷﺒﻮﻮٔﮞ ﮐﻮ ﺑﮑﮭﯿﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻓﻀﺎﺋﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻭہی ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻼﺷﻨﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ
ﻭہی ﻧﻮﭼﻨﺎ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﺘﯿﺎﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎہ ﺭﻭ
ﻭہی ﮈﮬﻠﺘﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺩﻟﮑﺸﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ

ﯾﮧ ﻧﮧ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﻣﺠﮭﮯ
ﭼﺎﮪ ﮔﺰﯾﺪﮦ ﺑﻨﺎ ﮔﺌﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺭُﺧﯽ
ﻭہی ﺷﻮﻕ ہیں ﻣﯿﺮﮮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ

سکول سے لیٹر آ گیا ہے اگر آپ کا بچہ ویلنٹائن کارڈ لانا چا ہ رہا ہے تو خیال رہے پوری کلاس اور اپنی کلاس کے سب اساتذہ کے لئے لے کر آ ئے۔ وجہ یہ کہ کوئی بھی کارڈ نہ ملنے پر ملول نہ ہو۔ بات تو مناسب ہے۔ ہم ہنسی مذاق میں ٹا ل دیتے ہیں لیکن یہ چا کلیٹ اور سرخ گلاب کے پھولوں کی تشہیر کس کس کا دل ملول کرتی ہے ہم کوئی خاص پرواہ نہیں کرتے۔ کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).