وہ مفلوک الحال دھوبی جس نے ناول لکھ کر اربوں کما لیے


ایک گزشتہ مضمون میں ہم بات کر چکے ہیں کہ اردو میں کتاب لکھ کر بندہ محض عزت ہی کما سکتا ہے لیکن انگریزی کا معاملہ مختلف ہے۔ ایک ایسے نہایت غریب مصنف کی داستانِ حیات پڑھتے ہیں جس کے پہلے ناول نے ہی اسے کروڑ پتی بنا دیا۔ آج کل کے حساب سے دیکھیں تو اس پہلے ناول نے اسے دو ملین ڈالر سے زیادہ یعنی ستائیس کروڑ کما کر دیے۔ آج اس کی دولت کا اندازہ 400 ملین ڈالر، یعنی 55 ارب روپے سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔ یہ ساری دولت اس نے اپنے قلم کی طاقت سے کمائی ورنہ ایک وقت ایسا تھا کہ اس کے پاس کھانا اور اپنے بچے کی دوائی خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔

وہ شخص جو ایک زمانے میں بارہ بارہ گھنٹے کپڑے دھوتا تھا، جو دوپہر دو بجے تک سکول میں پڑھنے کے بعد سہ پہر تین بجے سے رات گیارہ بجے تک فیکٹری میں مزدوری کیا کرتا تھا، جو پیٹرول پمپ پر جاب کرتا تھا اور پچیس سینٹ فی بوری کے حساب سے آلو کے کھیت میں محنت کرتا تھا، آج اس کی ایک کتاب پر اسے ایک ملین ڈالر یعنی چودہ کروڑ روپے سے زیادہ ایڈوانس رقم ملتی ہے۔

وہ بہت چھوٹا تھا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اس اکیلی نے اپنے دونوں بیٹوں کو پالا۔ اس کی ماں بیکری پر رات کی شفٹ میں کام کرنے لگی۔ وہ خود تعلیم حاصل نہیں کر سکی تھی لیکن جانتی تھی کہ تعلیم کے بغیر اس کے بیٹوں کو کامیابی نہیں ملے گی۔ اس کے دونوں بیٹوں کا کالج میں وظیفے پر داخلہ ہو گیا۔ وہ انہیں ہر ہفتے پانچ ڈالر جیب خرچ کے طور پر بھیجا کرتی تھی۔ اس کی موت کے بعد اس کے بیٹوں کو علم ہوا کہ یہ قلیل سی رقم جمع کرنے کی خاطر وہ اکثر فاقے کیا کرتی تھی۔

ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے سٹیفن کنگ بتاتا ہے کہ وہ لانڈری کی جاب سے مزید پیسے کماتا تھا۔ اس کے دو بچے تھے اور وہ اور اس کی بیوی ٹیبی (ٹیبتھا) دونوں کالج سے نئے نئے نکلے تھے۔ اس کی بیوی ٹیبی، ڈنکن ڈونٹس پر جاب کرتی تھی جہاں شام کی شفٹ میں وہ بھی کام کرنے جاتا تھا۔ اس زمانے میں وہ بالغوں کے رسالوں کے لئے کہانیاں لکھ کر اپنے قلم سے تھوڑا بہت کمانے لگا تھا۔

stephen-king-dave-and-mother-nellie
سٹیفن کنگ، بھائی ڈیو اور ماں نیلی

ان دنوں اس کی ماں کچھ کچھ بیمار رہنے لگی تھی۔ سٹیفن کنگ ان دنوں کے متعلق یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اس کی واضح ترین یاد وہ ہے جب وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر اپنی ماں سے ملنے گیا۔ اس کی ننھی بیٹی کا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ اسے اور اس کی بیوی کو علم تھا کہ اسے اینٹی بائیوٹک کی ضرورت تھی مگر ان کے پاس دوائی خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ وہ واپس اپنے گھر پہنچے تو اس کے میل باکس میں سے ایک لفافہ جھانک رہا تھا۔

وہ بے ساختہ دعا کرنے لگا کہ یہ گیس یا بجلی وغیرہ کا بل نہ ہو کیونکہ ان بلوں کے علاوہ اسے ڈاک میں کچھ موصول نہیں ہوتا تھا۔ سب دوسرے لوگ بھول چکے تھے کہ وہ زندہ بھی تھا یا نہیں۔ اس نے لفافہ کھولا تو ایک طویل افسانے کے معاوضے کے طور پر اسے پانچ سو ڈالر کا چیک دکھائی دیا۔ اس نے اب تک اتنی بڑی رقم نہیں کمائی تھی۔ اب وہ نہ صرف اپنی بچی کی دوائی بلکہ ایک اچھا سا کھانا بھی افورڈ کر سکتا تھا۔

جن دنوں اس نے اپنا پہلا ناول ”کیری“ شروع کیا، اسے ایک سکول میں ٹیچر کی جاب مل گئی تھی جہاں وہ ماہانہ پانچ سو ڈالر تنخواہ پانے لگا تھا۔ اس کی عمر اس وقت چھبیس برس کی تھی۔ لانڈری پر ڈیڑھ ڈالر فی گھنٹہ جاب کرنے کے بعد یہ ایک بڑی رقم دکھائی دیتی تھی۔ ان دنوں اس کے پاس ایک بالکل چھکڑا گاڑی تھی۔ اس کی بیوی ٹیبی ابھی بھی ڈنکن ڈونٹ پر کام کرتی تھی۔ ان کے گھر میں فون نہیں تھا کیونکہ وہ اس کا بل ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ بدلتے وقت کے ساتھ بالغوں کے رسالوں میں فحاشی کو ترجیح دیے جانے کے سبب اس کی کہانیوں کی فروخت بہت کم ہو گئی تھی۔ لیکن اس سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اسے لگتا تھا کہ وہ لکھنا بھول چکا ہے۔ لیکن ٹیبی اس کی ہمت باندھتی رہی۔ وہ کہتا ہے کہ ”جب بھِی میں کسی پہلی کتاب کا انتساب بیوی یا شوہر کے نام دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کوئی ہے جسے یہ سب کچھ پتہ ہے“۔

ان دنوں اس کا بھائی اپنے سابقہ کالج میں صفائی کا کام کرنے لگا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں سٹیفن نے بھی ادھر جاب کر لی۔ ایک دن اسے لڑکیوں کے ٹائلٹ میں کام کرتے ہوئے سینیٹری نیپکن کا ڈسپنسر دکھائی دیا تو وہ حیران ہوا۔ اس کے ساتھی ورکر نے بتایا کہ یہ کالج کی طرف سے مفت فراہم کیے جاتے ہیں کیونکہ کالج ایسا منظر افورڈ نہیں کرتا کہ کسی لڑکی کی جیب میں پیسے نہ ہوں اور وہ آلودہ حالت میں کالج اٹینڈ کرنے پر مجبور ہو جائے۔

جب سٹیفن کنگ نے اپنا پہلا ناول لکھنا شروع کیا تو یہی منظر اس کے ذہن میں چپکا ہوا تھا۔ ایک لڑکی اس کے ذہن میں آئی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ مرنے لگی ہے لیکن دوسری لڑکیاں اتنی بے حس ہیں کہ اس کی مدد کرنے کی بجائے اس کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ گھبراہٹ اور الجھن میں اس سے کچھ مافوق الفطرت واقعات کا ظہور ہوا۔

stephen-king-tabitha
سٹیفن کنگ اور ٹیبی

سٹیفن کنگ نے ناول لکھنا شروع کیا مگر اسے لگا کہ وہ اسے نبھا نہیں پائے گا۔ اس نے لکھے ہوئے صفحات کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیے۔ جب اگلی شام وہ کام سے واپس آیا تو ٹیبی نے صفائی کرتے وقت ٹوکری میں یہ صفحات دیکھے تھے۔ ٹیبی نے سٹیفن کی بہت حوصلہ افزائی کی کہ کہانی اچھِی ہے اور اسے مزید آگے بڑھانے کا کہا۔

ساتھ ساتھ وہ پارٹ ٹائم میں لانڈری پر بھی جاب کر رہا تھا۔ لانڈری پر زیادہ تر ساحلی ریستورانوں کے ٹیبل کلاتھ دھلنے آتے تھے جو کیکڑوں اور لوبسٹر سے سنے ہوتے تھے۔ جب تک وہ لانڈری پہنچتے، ان پر موجود کھانے کی باقیات سڑ کر دماغ اڑا کر رکھ دینے والی بو دینے لگتی تھیں۔ ان سے جوئیں ابل رہی ہوتی تھیں جو کپڑے مشین میں ڈالتے وقت بازوؤں پر چڑھ جاتی تھیں۔ جوئیں بری تھیں تو بدبو بدتر۔ اگر اس سے زیادہ برا کچھ ہو سکتا تھا توہ وہ ہسپتال سے آنے والے بیڈ شیٹس تھیں۔ ان پر بھی جوئیں ہوتی تھیں مگر یہ جوئیں کیکڑے اور لوبسٹر کی بجائے بیڈ شیٹس پر موجود انسانی خون پر پلتی تھیں۔

ناول ختم ہوا۔ کالج کے دنوں کے ایک واقف بل تھامسن کے ذریعے سٹیفن کنگ نے ناول کو ایک بڑے پبلشر کے پاس بھیج دیا اور اس کے متعلق بھول گیا۔ پبلشنگ سلو بزنس ہوتا ہے۔ کام قبول یا مسترد کیے جانے کی اطلاع آنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ ایک دوپہر سٹیفن کنگ سکول میں تھا کہ اسے اطلاع آئی کہ ٹیبی کا فون آیا ہے۔ وہ سکول کے دفتر پہنچا اور یہ سوچتے ہوئے فون اٹھایا کہ تو اس کے بچوں نے گر کر اپنی ٹانگ تڑوا لی ہے یا اس کا ناول کیری بک گیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar