قندیل آخر بجھا دی گئی


\"hafeezوہ ہمارے دوہرے معیار کے مذہبی لوگوں کے منہ پر طمانچہ تھی۔ وہ اس منافق معاشرے کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ تھی۔ وہ ایک ایسی باغیانہ چیخ تھی کہ جس کو سن کر اہل ہوس بھی ڈر گئے تھے۔ وہ اس پدر سری معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ تھی۔ وہ قندیل تھی ۔ اس نے تھوڑی دیر روشنی پھیلانے کی جدوجہد کی۔ وہ لڑی، وہ آگے آئی، اس نے دستار فضلیت کے نیچے چھپے چھوٹے سروں کے حامل دولے شاہ کے چوہوں کا بھانڈا پھوڑا، لیکن وہ اکیلی تھی۔ تاریکی زیادہ تھی اس لئے آخر کار وہ اندھیروں سےہار گئی۔ اور قندیل بجھا دی گئی۔

اس کی زبردستی شادی کی گئی، لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ ذلت سہی، اذیت سہی، تیزاب سے منہ جلانے کی دھمکیاں سہی، اور پھر آخر کار جان بچانے کے لئے دار الامان جاپہنچی۔ وہاں رہی۔ شوہر سے طلاق لی۔ پھر زندگی کو آگے بڑھایا اور اس کے بعد میڑک کی۔ پھر یہاں وہاں نوکریاں کیں۔ اور ساتھ کے ساتھ پڑھائی جاری رکھی۔ اس نے بطور بس ہوسٹس کام کیا۔ لوگوں نے اس کے بدن سے مس ہونے کے لئے جان بوجھ کر کئی ہاتھ آگے کئے ہوں گے۔ غیرارادی عمل کا ڈرامہ کرتے ہوئے اس کے کولہوں سے ہاتھ مس کئے ہوں گے۔ اس کی راہ میں پاؤں رکھ کر اس کے بدن کو محسوس کرنے کی گھٹیا کوشش کی ہوگی۔ لیکن وہ یہ سب سہتی رہی۔ بس اڈوں کی غیر محفوظ جگہوں پر جاکر وہ اپنا پیٹ پالنے کی کوشش کرتی رہی ۔ اور اس مردوں کے معاشرے سے لڑتی رہی۔

بقول منٹو اس معاشرے میں خواتین کو تانگہ چلانے کی اجازت نہیں لیکن کوٹھا چلانے کی اجازت ہے۔ لیکن اس کے باوجود قندیل کوٹھا چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ بس ہوسٹس رہنا اس کے لئے دشوار کردیا گیا۔ اس کے بعد اس نے شوبز کا رخ کیا۔ اور پھر وہاں اس کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو کہ ایک نئی اور بغیر جان پہچان کی لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور پھر اس بے باک لڑکی نے کہا کہ مجھے جو کچھ کرنے کو کہا گیا وہ میں نے خوشی سے نہیں کیا۔ مجبوری سے کیا۔ اور اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو مجھے اس سے سروکار نہیں۔

اس اکیلی جان نے اپنی بہنوں کی شادیاں کیں۔ ان کو جہیز دیا ۔بوڑھے ماں باپ کے رہنے کے لئے گھر بنا کر دیا۔ اور بھلا وہ کیا کرتی۔ اس پدر سری معاشرے میں اس نے بیٹوں سے بڑھ کر کام کیا۔ بھلا اس سے بڑھ کر وہ اور کیا کرتی۔ وہ اپنے بیمار باپ کا حال لینے ملتان گئی۔ اور پھر وہاں اس کا بھائی بھی پہنچ گیا۔

ایک ایسا بیٹا جو ماں باپ کےلئے کچھ نہ کرسکا۔ جو فقط نام نہاد غیرت کی پوٹلی تھا۔ وہ سو بیٹوں پر بھاری اس بیٹی کے پیچھے وہاں پہنچ گیا۔ اور پھر اس مرد نے اپنی مردانگی یوں دکھائی کہ سوتی ہوئی ایک نہتی لڑکی کو گل گھونٹ کر ماردیا۔ یہ تھی اس کی ساری غیرت اور جرات۔ وہ اپنے ماں باپ کے لئے تو کچھ نہ کرسکا۔ اپنی بہنوں کے لئے کچھ نہ کرسکا۔ ہاں کئی بھائیوں پر بھاری ایک بہن پر بھاری ہوگیا۔ اور اس کی جان لے لی۔

قندیل بجھ گئی ہے۔ اندھیرا پھر سے گِھر آیا ہے۔ لیکن قندیل اندھیروں سے زنانہ وار لڑی۔ وہ مردوں کے معاشرے سے ہار تو گئی ہے لیکن اس کی ہار وقتی ہے۔ وہ جاتے جاتے کہہ گئی ہے کہ قندیلیں بجھانے والے روشنی کو ختم نہیں کرسکتے۔ ایسے میں فیض کی نظم \”زندان کی ایک شام \” کے چند مصرعے ذہن میں مچل گئے ہیں:

دل میں پیہم خیال آتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments