جگنی کا ایک تعارف


حکومتِ پنجاب کی سرپرستی میں منشی گلاب سنگھ و برادران نے خالصہ کالج کونسل کے رکن بھائی مایا سنگھ (’’بھائی‘‘ احترام کا کلمہ ہے جیسے ’’جناب‘‘ اور سکھ مذہبی رہنماؤں کے نام کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے) سے ایک پنجابی لغت لکھوائی، جسے امرتسر کے ڈاکٹر ایچ ایم کلارک نے ’’پاس‘‘ کیا اور  پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کی وساطت سے 1895 میں اسے چھاپ دیا گیا۔ کتاب کے دیباچے کے مطابق یہ 1854 میں چھپنے والی لغت کا ترمیمی ایڈیشن تھا۔ اس کے مطابق ’’جگنی، عورتوں کا گردن میں پہننے کا ایک زیور ہے۔ اس سے متعلق گیت بھی ’’جُگنی‘‘ کہلاتا ہے۔‘‘ یہ سلنڈر نما زیور ریشمی دھاگوں کی بغیر بل کی رسی میں پرویا ہوتا ہے جس سے اسے گردن کے گرد پہن لیا جاتا ہے اور خود جگنی گردن کے ساتھ لٹک جاتی ہے۔ پنجابی لوک ادب میں اسی طرز کی ایک اور مثال  چھلا ہے۔ گویا مختصراً آپ جگنی کو گیت کہہ سکتے ہیں۔

بطور زیور جگنی کا ذکر وارث شاہ صاحب کی ہیر (1766/67 عیسوی) میں ہیر کے جہیز کے ذکر کے ایک حصے میں ملتا ہے:

سکندری، نیوری، بیر بلیاں، پپل وترے، جھمکے ساریا نیں
ہس جڑے، چھڑ کنگناں، نال بودا بدھی ڈول میانڑا دھاریا نیں
چنن ہار، لوہلاں، ٹکا، نال بیڑا اتے ’’جگنی‘‘ چا سواریا نیں
بانکاں، چوڑیاں، مشک بلایاں بھی نال مچھلیاں والڑے ساریا نیں
بندے، آرسی نال انگوٹھیاں دے، عطر دان، لدن ہریاریا نیں
داج گھت کے تونک صندوق بدھے، سنو کیہ کیہ داج رنگایا نیں
وارثؔ شاہ میاں اصل داج رانجھا، اک اوہ بد رنگ کرایا نیں

[ہیر، صفحہ 233-34، مرتبہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، مطبوعہ تاج بک ڈپو، اردو بازار، لاہور]

انٹرنیٹ پر موجود ایک انگریزی تحریر میں اور ہمارے ممتاز صحافی، جناب جاوید چودھری صاحب نے اپنے ایک کالم ’’ہم آج بھی جگنی سے باہر نہیں آتے‘‘ میں اسے 1887 میں ملکہ وکٹوریہ کی ہندوستان میں تاجپوشی کی گولڈن جوبلی سے جوڑ کر ’’جگنی‘‘ کو ’’جوبلی‘‘ کا بگاڑ بنا دیا۔ حالاں کہ اس گولڈن جوبلی سے پہلے ہی یہ گیت اور لفظ پنجابی زبان و لوک ادب کا حصہ تھا۔ اسی طرح نیو یارک ٹائمز میں امریکی صحافی و موسیقی کے نقاد جناب جان پریلز نے اپنے ایک آرٹیکل Delivering delirium, with long incantations and hypnotic beats میں جگنی کی وضاحت ’’جگنو (firefly)‘‘ کے طور پر کی ہے جو اس مناسبت سے درست نہیں۔

زیور کے معنوں کی تصدیق ان مصرعوں سے ہوتی ہے:

میری جگنی دے دھاگے بگے
جگنی اوہدے مونھ تے پھبے
جنہوں سَٹ عشق دی لگے

جگنی میں چھوٹے چھوٹے گھنگرو ہوتے ہیں۔ ان کی آواز کو یوں وسیع معنوں میں استعمال کیا گیا:

ہو پیر میریا جگنی کہندی آ
جیہڑی نام سائیں دا لیندی آ
جیہڑی نام رب دا لیندی آ

عالم لوہار صاحب نے جو جگنی گائی ہے اس کا آغاز منقبت سے اس انداز سے کیا ہے کہ یہ منقبت جگنی سے نکلنے والی آواز ہے۔ اس کے بعد باقی جو بھی تعمیمی باتیں انہوں نے کی ہیں وہ اسی طرح جگنی کی زبان سے ہیں۔

معنوی وسعت پا کر جگنی گیتوں میں کسی شخص کے لئے استعارہ بن گئی۔ یہ جہاں جاتی ہے وہاں کی خصوصیات یا احوال بھی بیان کرتی ہے، مثال کے طور پر:

جگنی جا وڑی ملتان
اوتھے وڈے وڈے پہلوان
مارن مُکّی، کڈھن جان

جگنی جا وڑی کلکتے
اوتھے لے کتاباں نچے
باندر کھڑکی اوہلے ہسے

جگنی بتاتی ہے کہ کون سا علاقہ کس طرح کا ہے۔ اس میں ظریفانہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیوں کہ ظرافت میراثیوں کے گانے کا مقصد بھی ہوتا تھا۔

جگنی جا وڑی مجیٹھے
کوئی رَن نہ چکی پِیٹھے
پُت گبھرو ملک وچ مارے
روون اکھیاں پاڑ، بُلھ سی سِیتے
پیر میریا او جگنی آئی آ
ایہناں کیہڑی جوت جگائی آ

جگنی جا وڑھی لدھیانے
اوہنوں پَے گئے انہے کانے
مارن مُکّیاں منگن دانے
پیر میریا او جگنی کہندی آ
جیہڑی نام علی دا لیندی آ

اوپر بیان کردہ تمام معنی ان مصرعوں میں پائے جاتے ہیں:

جگنی ڈِگ پئی وچ روہی
اوتھے رو رو کملی ہوئی
اوہندی وات نئیں لَیندا کوئی

کوئی موضوع جب ادب یا لوک ادب کا حصہ بن جاتا ہے تو اس میں وسعت آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اس کا استعمال محض بات شروع کرنے کے لئے اور قافیے کے تعین کے لئے بھی کیا گیا، مثلاً ’’پیر میریا جگنی کہندی اے‘‘ کہہ کر کوئی بھی بات کہہ لی جاتی ہے۔ اور ایسا پنجابی لوک ادب میں عام ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ’’اکڑ بکڑ بمبا بو / اسّی نبّے پورا سو‘‘ بچوں کا گیت ہے۔ اس مکمل گیت سے کوئی مطمئن کرنے والے معنی نہیں نکلتے۔ محض قافیے سے قافیہ جڑتا چلا جاتا ہے، اور ہر ٹکڑا اپنا الگ لطف دیتا ہے۔ ایسا پنجابی ادب کی دیگر اصناف میں بھی ہوتا ہے، مثلاً ماہیے میں پہلی سطر محض بات شروع کرنے کے لئے ہوتی ہے اور اس کے عموماً کوئی معنے نہیں ہوتے۔ مگر اس کے آخر میں آنے والا قافیہ بقیہ مصرعوں کے ساتھ اپنا حسن رکھتا ہے اور لطف دیتا ہے۔

انیتا چہل نے اپنے تحقیقی آرٹیکل Making meaning of Punjabi folk songs in Hindi cinema: A gender perspective میں بالی ووڈ فلموں میں مندرجہ ذیل کچھ جگنیوں کا حوالہ دیا ہے:

جُگنی اِک لڑکی کا نام / سب کی کر دی نیند حرام (فلم آہُوتی 1978)  جُگنی، جُگنی (فلم بادل 200)  پٹاخہ گُڈّی: او جگنی او، پٹاخہ گڈی او (فلم ہائی وے 2014)  جگنی: جگنی اڑی نئے نئے پر لیے، او پنجرا کھول (فلم کوئین 2014)

اسی طرح جگنی، محبوب اور اس کے حسن و خوبی کے لئے استعارہ بنا۔ مثال کے طور پر ایک فیس بک پوسٹ دیکھی:

جہنوں آؤندا ناں قینچی سیکل چلاؤنا
جگنی رکھدی ہتھ فراری تے

گرو گرنتھ صاحب سکھوں کی مقدس کتاب ہے۔ وہاں سے مذہبی نوعیت کے مواد نے فقیروں کی بانڑی کی شکل پائی۔ اس جیسی شاعری کے ماحول میں جگنی بنی اور اس میں مذہبی اور صوفیانہ رنگ جھلکنے لگا۔ اور مذہب قریب قریب ہر سنجیدہ پنجابی صنف میں شامل ہوا اور اس سے دور ہوتا گیا۔ یہی حال جگنی کا ہوا۔ جگنی بالآخر اپنی بیش تر خوبیوں سے کنارہ کش ہوتی ہوئی بالآخر گیت میں ایک مٹیار بن کر اپنی تمام گہرائی کھو چکی اور اسی قدر دلکش ہے جس قدر اچھا ماضی ہوتا ہے۔

محمود احمد
Latest posts by محمود احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).