نصرت جاوید نے ایک ماہ پہلے کہا تھا مودی الیکشن جیتنے کے لئے جنگی ماحول بنائے گا


انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں جمعرات کی شام ایک حملے میں کم از کم 34 سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ درجنوں کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔
حکام کے مطابق ایک خودکش حملہ آور نے لیتہ پورہ کے قریب جموں سرینگر شاہراہ پر نیم فوجی فورس سی آر پی ایف کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا۔ حملے کی زد میں آنے والی ایک بس میں 44 اہلکار سوار تھے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے بسوں پر فائرنگ کی اور بعد میں دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی ایک گاڑی قافلے سے ٹکرا گئی۔ مسلح گروپ جیش محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ آپریشن گنڈی باغ پلوامہ کے کمانڈو عادل احمد عرف وقاس کمانڈو نے انجام دیا۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ نصرت جاوید صاحب نے اپنے 3 جنوری 2019 کے کالم میں یہ لکھا تھا کہ “آئندہ انتخابات کی جانب بڑھتے ہوئے نریندر مودی پاکستان کو ’’سدھارنے‘‘ کی بڑھکیں لگائے گا۔ مذہب کے بجائے ’’بھارت کے دفاع‘‘ کو اپنی بنیادی تھیم بنائے گا۔” یہ خودکش حملہ اور اس کے بعد بھارت میں پیدا کیا جانے والا جنگی جنون یہ ظاہر کر رہا ہے کہ نصرت جاوید کی پیش گوئی درست ثابت ہو گی۔ نصرت جاوید صاحب کا کالم درج ذیل ہے:

مودی کی بڑھک۔ پھر تباہی ہی تباہی ہے

3 جنوری 2019

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو جلسوں کے ذریعے دھواں دار تقاریر اور بڑھکیں لگانے کا شوق ہے۔ پریس کانفرنسوں کے ذریعے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنے خیالات بیان کرنے سے وہ اجتناب برتتا ہے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے محض چند چہیتے اینکروں کو ون آن ون انٹرویو دیے۔ ان انٹرویوز میں بھی زیادہ تر سوالات فرمائشی تھے۔ اپنی ”پرفارمنس“ سے وہ اس کے باوجود کئی بار مطمئن نہیں ہوا۔ ذاتی طورپر مجھے کم از کم دو ایسے واقعات کا علم ہے جہاں مودی نے انٹرویو دینے کے بعد اسے دیکھا اور فوری طورپر نئے سوالات تیار کرواکے دوبارہ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر ایک اور انٹرویو دیا۔ پہلے انٹرویو کو اپنے سامنے تلف کرواکے نئے کو چلانے کی اجازت دی۔

بھارت کی ہندی بیلٹ میں حال ہی میں صوبائی اسمبلیوں کے جو انتخابات ہوئے ان میں بی جے پی کو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ اس شکست کی وجہ سے پہلی بار بہت ٹھوس انداز میں یہ پیغام ملا کہ اگر حزب مخالف کی جماعتیں متحد ہوکر کوئی مؤثر حکمت عملی تیار کرلیں تو آئندہ چار ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں مودی اور اس کی جماعت سادہ اکثریت سے بھی محروم ہوسکتی ہیں۔

ایک جبلی سیاست دان ہوتے ہوئے نریندر مودی کو یقینا اس تاثر سے پریشانی لاحق ہوگئی ہوگی۔ میں کئی ہفتوں سے منتظر تھا کہ اس تاثر کو رد کرنے کے لئے وہ کون سا نیا چورن لے کر اپنے لوگوں کے سامنے آئے گا۔

2019 کے پہلے روز بالآخر وہ نسبتاً ایک نئے روپ اور سودے کے ساتھ ٹی وی سکرین پر نمودار ہوا ہے۔ خبررساں ایجنسی اے این آئی کی سمیتا کو ایک طویل انٹرویو دیا۔ سوالات اس انٹرویو میں کافی پیشہ وارانہ مہارت اور آزادی کے ساتھ اٹھائے گئے۔ مودی نے اپنی رعونت والی شہرت کے برعکس ان سوالات کا نسبتاً دھیمے لہجے میں جواب دیا۔

یہ بات عیاں ہوگئی کہ ہندو انتہا پسندی کی بنیاد پر آر ایس ایس کا بنایا رویہ مودی کے کام نہیں آیا ہے۔ واجپائی کی طرح اس کو بھی اب اس رویے سے تھوڑا فاصلہ رکھتے ہوئے کچھ ”معتدل مزاجی“ دکھانا ہوگی۔ گائے کی حرمت کے نام پر جو وحشیانہ قتل ہوئے وہ اس کے ووٹوں کو خراب کررہے ہیں۔ معاشی محاذ پر رونق نہیں لگی۔

اسے گماں تھا کہ نوٹ بندی کے ”انقلابی“ قدم سے وہ بھارتی ریاست سے چھپائی ناجائز کمائی کو قومی خزانے میں واپس لے آئے گا۔ نوٹ بندی کی وجہ سے مگر اس کی حکومت اتنی رقم بھی حاصل نہ کر پائی جو نئے نوٹ چھاپنے کے لئے خرچ ہوئی تھی۔ نوٹ بندی کے ”انقلابی“ قدم نے بلکہ سیٹھوں اور خاص کر دکان داروں میں خوف کی فضا پیدا کردی۔ دھندے میں مندی نے ”بنیا ووٹ“ کو پریشان کردیا جبکہ بی جے پی کی اصل قوت دکان داروں کے دیے چندے اور ووٹ پر مبنی ہوا کرتی تھی۔

وحشیانہ ہندو انتہا پسندی کے بلو بیک کو ذہن میں رکھتے ہوئے مودی اب بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی عجلت میں نظر نہیں آرہا۔ اپنے انٹرویو میں وہ اصرار کرتا رہا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔

گائے کی حرمت کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں ہوئے قتل کے مختلف واقعات کی اس نے کھل کر مذمت تو نہیں کی لیکن اس سے لاتعلقی کے اظہار پر بضد رہا۔ نئے انتخابا ت کی جانب بڑھتے ہوئے ہندو انتہا پسندی کے فسطائی رویوں سے دوری دکھانے کی کوشش بھارتی مسلمانوں اور اقلیتوں کو یقینا تھوڑا اطمینان فراہم کرے گی۔

نریندر مودی جیسے سیاست دانوں کو لیکن اپنی دوکا ن چمکانے کے لئے کسی ”ویری“ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندو انتہا پسندی کو منافقانہ انداز میں ترک کرتے ہوئے بھی اسے ایک ”دشمن“ درکار ہے جس کے خلاف ”قوم“ کو متحدہ کرنے کا راگ الاپا جاتا ہے۔ منگل کے روز چلے انٹرویو سے واضح ہوگیا کہ آئندہ انتخابات کی جانب بڑھتے ہوئے نریندر مودی پاکستان کو ”سدھارنے“ کی بڑھکیں لگائے گا۔ مذہب کے بجائے ”بھارت کے دفاع“ کو اپنی بنیادی تھیم بنائے گا۔

ستمبر 2016 میں مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اڑی میں اپنے فوجیوں کے قتل کا ”بدلہ“ لینے کے لئے لائن آف کنٹرول کو پار کرتے ہوئے پاکستانی علاقوں میں گھس کر ”سرجیکل سٹرائیکس“ کی تھیں۔

مجھ جیسے پاکستانی صحافیوں نے اگر اس دعوے پر اعتبار نہیں کیا تو اسے ہماری ”قوم پرستی“ ٹھہراتے ہوئے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں مودی کے مخالف سیاستدانوں نے بھی لیکن اس دعویٰ پر مسلسل سوالات اٹھائے۔ ان سوالات کا آج کے ڈیجیٹل زمانے میں جبکہ نائٹ وژن کیمروں کے ذریعے سرجیکل سٹرائیکس کو ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود ہے، ٹھوس شواہد کے ساتھ جواب نہیں ملا۔

نئے سال کے پہلے روز دیے انٹرویو میں لیکن بھارتی وزیر اعظم نے بہت جذباتی انداز میں ان سٹرائکس کا ذکر کیا۔ اس کے انٹرویو کے لئے جو سوالات تھے ان کے عمومی سٹرکچر میں ان سٹرائکس کے تفصیلی ذکر کی گنجائش موجود نہیں تھی۔ مودی نے مگر اپنی بات کہنے کی سپیس نکالی۔

اصرار کرتا رہا کہ پاکستان کو صرف ایک جنگ کے ذریعے ”سدھارا“ نہیں جاسکتا۔ اسے بین الاقوامی طورپر دہشت گردی کا سرپرست قرار دیتے ہوئے تنہائی سے دو چار کرنا پڑے گا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اپنے پے در پے غیر ملکی دوروں کے ذریعے وہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں آئی سولیٹ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے باوجود شاید ستمبر 2016 میں ہوئی مبینہ سٹرائکس کو دہرانے کی ضرورت ہوگی۔

سارک تنظیم کے احیاء کے لئے حکومتِ پاکستان کی دعوت پر اس نے اس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت پر رضا مندی کمٹ نہیں کی۔ ”جب دعوت آئے گی تو دیکھا جائے گا“ والا رویہ اختیار کیا۔ انٹرویو کے دوران اپنائی اس کی ٹون اور لفظوں نے اگرچہ یہ خواہش عیاں کردی کہ شاید وہ پاکستان کی جانب سے ایسی دعوت آنے کا ماحول ہی پیدا نہیں ہونے دے گا۔

اس کا انٹرویو چلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد خبر آگئی کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کے ایک ڈرون نے پاکستانی سرحد میں گھسنے کی کوشش کی۔ ہم نے اسے مارگرایا۔ اس سے قبل ایسے ہی طیاروں کی معاونت سے بھارت اپنی سرحد میں دو پاکستانی کمانڈوز کو ہلاک کرنے کے دعوے کرچکا ہے۔

اس دعوے کے اثبات کی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے۔ لائن آف کنٹرول پر لیکن اشتعال انگیزی کو بڑھادیا گیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ شاید اس محاذ کومسلسل اشتعال انگیزی کے ذریعے مزید کئی ہفتوں تک ہاٹ رکھا جائے گا۔

محض چار ماہ بعد ہونے والے عام انتخابا ت میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے مودی کی جانب سے لائن آف کنٹرول کو گرمائے رکھنا ایک اعتبار سے سمجھا جاسکتا تھا۔ پاکستان کے پاس اس سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت کماحقہ حد تک موجود ہے۔

مودی کو مگر یہ سمجھنا ہوگا کہ لائن آف کنٹرول جیسے محاذ پر مسلسل اشتعال انگیزی ڈراموں کے لئے لکھے اسکرپٹس کی طرح اپنی خواہشات کے مطابق محدود نہیں رکھی جاسکتی۔ حکمرانوں کا اشارہ ملے تو حتمی Initiative on the Spot تعینات ہوئے فوجیوں کے پاس چلاجاتا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس محاذ پر حرارت کو ایک حد سے زیادہ بڑھادیا گیا تو ہمارے ہاں سے منہ توڑ جواب دینے کی خواہش بھی شدید تر ہوجائے گی۔

پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوت کے حامل ممالک ہیں۔ فقط انتخابات جیتنے کے لئے مودی جیسے سیاست دانوں کو جنگی ماحول بھڑکانے سے اجتناب برتنا ہوگا۔ وگرنہ تباہی ہی تباہی ہے۔ کسی ایک فریق کی ہار یا جیت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).