باچا خان کا بیانیہ


\"faizullahنسلی و لسانی تعصب کی بنیاد پہ باچا خان نے جن نظریات کی ترویج کی اسے خود پشتونوں نے بھی خاص پذیرائی نہیں بخشی۔ باوجود اس کے کہ باچا خان کے پیروکار سمجھتے ہیں کہ پشتون دنیا کی سب سے اعلی و ارفع قوم ہیں جو کہ حکمرانی کے لئے دنیا میں اتارے گئے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ فکر باچا خان سے متاثرہ خود کو پشتون پہلے اور مسلمان بعد میں سمجھتے ہیں یہ اور بات ہے کہ اسلام ایسے تمام بتوں کو ٹھوکر کی زد پہ رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ قبیلے صرف تعارف کے لئے ہیں فضیلت کا معیار البتہ تقویٰ ہی ہے۔ باچا خان کی زندگی ہی میں خیبر کے پشتونوں نے ان کی رائے کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے پاکستان میں شمولیت اختیار کی، پشتونوں کا لگایا ہوا یہ زخم باچا خان اور ان کے پیروکار ابھی تک فراموش نہیں کرسکے۔ یہی وجہ تھی کہ باچا خان نے اپنے لئے مزار جلال آباد میں پسند کیا۔ فکر باچا خان کے مزید ایک متاثر اجمل خٹک تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ کابل سے ٹینکوں پہ سوار ہوکر اٹک تک کا علاقہ آزاد کرائیں گے یہ اور بات تھی کہ بعد میں اجمل صاحب اپنی فکر و فلسفے سمیت مشرف ہی کو پیارے ہو گئے۔

باچا خان کا المیہ بھی عجب رہا۔ پشتون پاکستان کے حق میں تھے تو وہ کانگریس کے ساتھ قدم سے قدم ملائے کھڑے تھے۔ سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کی تو غفار خان کمیونسٹوں کے ساتھ اس بات کے منتظر تھے کہ کب روسی جہاز بحیرہ عرب میں اتریں اور ان کے ناتمام خواب پورے ہوں۔ امریکہ نے کابل پہ بارود کی برسات کی تو باچا خان کے پیروکار امریکہ کے ساتھ تھے۔ یاد رہے کہ یہ وہی امریکہ تھا جسے خدائی خدمتگار کے پیروکار افغانوں کا قاتل کہتے تھے۔ خیر انہی دنوں خان عبد الغفار خان کا پوتا واشنگٹن گیا اور اپنے سارے پاپ معاف کراتے ہوئے مور بی بی (محترمہ بیگم نسیم ولی خان ) کے مطابق فقط 35 لاکھ ڈالرز میں پشتونوں کے خون کی قمیت لگائی اور بدلے میں صوبائی حکومت پا کر کرپشن کا بدترین بازار گرم کیا ۔ پاکستان توڑنے اور باچا خانی فکر کے لوگوں کی روسی سے محبت و الفت کی داستان جاننے کے لئے بہتر ہوگا کہ اجمل خٹک اور دیگر باچا خانی پیروکاروں کے ساتھ کابل میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے جمعہ خان صوفی کی کتاب ’ فریب ناتمام‘ کا مطالعہ کرلیا جائے۔

فکر باچا خان جسے اپنانے کا مشورہ کچھ دوست دے رہے ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ باچا خان نے اس ریاست کو تسلیم ہی کب کیا ؟ وہ ڈیورنڈ لائن ہی کو نہیں مانتے ۔ ان کے مطابق تو اس معاہدے کی رو سے اٹک تک کا علاقہ افغانستان کو دیا جائے۔ بھلا کوئی ذی ہوش یہ کرسکتا ھے ؟

سید مودودی کی تو خیر زندگی بھی طعنوں میں گزر گئی لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ ان کی زندگی میں کب ریاست نے ان کا بیانیہ اختیار کیا ؟ ریاست اپنا بیانیہ مفادات کے تابع ہو کر تشکیل دیتی ہے۔ ویسے بھی اطلاعاً عرض ہے کہ اس بیانیے کی ابتدا بھٹو نے کی تھی۔ وجہ اس کی بھِی باچا خانی فکر کا توڑ تھا جو آزاد پشتونستان کی تحریک کی صورت میں ہماری بنیادیں کھود کررہا تھا۔ خیر ریاست کا اپنا بیانیہ ہوتا ہے جسے حسب ضرورت مذھب…. قوم…. سیکولر ازم یا الحاد کا تڑکہ لگایا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مشرف نے روشن خیالی و سیکولر ازم کے بیانیے کو ریاست کے لئے پسند کیا کیونکہ وہی تب بھِی اور اب بھی ریاست کی ضرورت ہے تو کیا ہم کہیں گے کہ یہ سیکولرازم کے اصلی و نسلی علما سے پو چھا گیا ہے ؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا کیونکہ ایک آدھ سیکولر کو چھوڑ کر وطن عزیز کے سارے سیکولر جعلی ہیں یا زیادہ سے زیادہ ردعمل میں لکھتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اب انہیں غامدی صاحب کی شکل میں ایک عدد اسلامی سیکولر مل چکا اور اب اسلامی سیکولرز مذہبی رنگ لئے قوم کو حاکمیت کے باب میں گمراہ کر رہے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
24 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments