میں شاعر ہو گیا ہوں 


ہم اپنی بات نہیں کرتے البتہ شعرا کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ حضرات خبطی واقع ہوتے ہیں ’اس کی وجہ نہ تو ہمیں پہلے پتہ تھی اورنہ اب ہے۔ پرانے زمانے میں بیچارے شعرا خواہ مخواہ بدنام بھی توتھے ناں‘ ہم سب کی بات نہیں کرتے البتہ کہاجاتاہے کہ کتابی شعرأگلے فٹ ہو جائیں تو جان چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔ مثال کے طورپرایسا کوئی شاعر آپ کو راستے میں ٹکر گیاتو پھر آپ کا گھنٹہ دو خواہ مخواہ اڑن چھو۔ عموماً لطائف میں شعرا کو خبطی بھی ظاہر کیاجاتاہے لیکن چونکہ ہم دورجدید میں پہنچ چکے ہیں اس لئے ہمارے دور کے شعرا بھی جدید ہیں۔

پہلے زمانے میں موسم کا مزاج دیکھ کر شاعری کی جاتی تھی اب موڈ کے مطابق۔ ہمیں یقین ہے کہ شاعر نے ”باغوں میں پڑے جھولے۔ تم بھول گئے ہم کو ہم تم کو نہیں بھولے“ موسم برسات میں لکھاہوگا۔ ظاہرہے کہ ساون کے موسم اور ہی برستی بارش میں باغوں میں جھولے ڈالے جاتے تھے۔ فی زما نہ یہ ریت بھی دم توڑچکی ہے۔ بہرحال ہمیں یقین ہے کہ یہ گیت ساون کے حوالے سے ہی تھا۔ اب ہوتا یوں ہے کہ ادھرکڑکتی پھڑکتی دھوپ تنگ کیے جا رہی ہوتی ہے اور ہمارے شعرا کا موڈ درست ہوتو انہیں وہ موسم بھی سہانا ہی لگتاہے اگر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو ’آسمان پر بادل اٹھکیلیاں کرتے پھررہے ہوں لیکن شاعر کا موڈ خراب ہو تو اسے یہ موسم بھی نہیں بھاتا۔

اب آپ یہ بھی مت سمجھئے کہ ہم تمام شعرا کے متعلق اظہارخیال کررہے ہیں نہیں نہیں یہ محض ان کے لئے جو موڈ کے پابند ہیں۔ موڈ ہوا تو اپنی محبوبہ کو دنیا کی حسین ترین لڑکی ثابت کردیا اور اگر مزاج یار خراب ہوں تو پھر وہ محبوبہ بھی وبال جان دکھائی دیتی ہے۔ چھوڑئیے ہمارے ایک دوست ہیں رنگ اور انداز بدلنا تو کوئی ان سے سیکھے۔ ۔ کبھی بال بڑھے ہوئے تو کبھی فوجی کٹ۔ کبھی پینٹ شرٹ ہے تو کبھی اسی پینٹ کا ”کچھا“ بنا کر خواہ مخواہ ”آزادی“ کا مزہ لوٹا جاتا ہے اور شرٹ بیچاری ایک بازوسے محرومی کے بعد ایک طرف جھکی روتی چلاتی نظر آتی ہے۔

کبھی پاؤں میں اعلیٰ قسم کے جوتے توکبھی ٹوٹے ہوئے چپل۔ وجہ غربت یا بیروزگاری نہیں بلکہ کہا جاتاہے ”فیشن ہے“ اللہ بخشے ایک اور دوست نے اسے پینٹ شرٹ تحفے میں دی۔ اگلے دن وہ صاحب زیب تن کرکے آئے ’ہم حیران رہ گئے کہ یہ پینٹ ہے یا کوئی اور شے۔ موصوف نے پینٹ کو ایک طرف سے نیکربنارکھا تھا اوردوسری طرف وہ واقعی پینٹ ہی تھی۔ اگلے دن آئے تو سکون کا سانس لیا کہ واقعی اب دونوں سائیڈیں برابر تھیں۔ خیر یہ باتیں عرض کرنیکا مقصد محض اتنا ہے کہ آپ اس کی طبیعت کے متعلق اچھی طرح آگاہ ہوجائیں۔

خیر ایک دن سنجیدہ ’فہمیدہ خاتون کی طرح سرجھکائے‘ ہاتھ میں قلم پکڑے وہ صاحب تشریف لائے۔ ہمارے پاس بیٹھنے کے باوجود صاف دکھائی دے رہاتھا کہ وہ اپنے آپ میں نہیں ہیں۔ بات بات پر سر اٹھا کر کرسی کی ٹیک پر مارتے اور پھر دائیں بازو لہراکر کرسی کے بازو پر دھڑم۔ ہم نے وجہ پوچھی تو گویا ہوئے ”میں شاعر ہوگیا ہوں“ یہ سنتے ہی ایک قہقہہ ہمارے حلق سے ابل پڑا۔ وہ صاحب حیران ’ہم نے عرض کی حضور شاعر بنتے نہیں ہیں بلکہ خدا کی طرف سے بنے بنائے ہوتے ہیں۔

وہ صاحب غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بازو لہرا لہرا کرکہنے لگے مجھ میں شاعروں کی کون سی خوبی نہیں ہے۔ یہ لہراتے ہوئے بازو ’بٹنوں سے محروم کف‘ گریبان کے پہلے دو بٹن سرے سے غائب ’سر کے بال جھاڑیوں کی طرح بکھرے ہوئے۔ ہم نے کہا اجی حضرت یہ کس زمانے کی بات کر رہے ہو‘ آج کل تو شاعر مالی طور پر بہتر زندگی گزار رہے ہیں ویسے بھی پرانے زمانے میں کم ازکم شعرا کا یہ حال نہیں ہوا کرتا تھا۔ خیر ان کی ضد تھی ہم نے تسلیم کرلیا کہ وہ صاحب شاعر ہوگئے ہیں۔

ہم نے کہا کہ اجی حضرت کوئی کلام بھی ارشاد فرمائیے ناں۔ وہ صاحب گلہ صاف کرنے کے لئے کھنگارے ’کالر درست کیے‘ ہم تیار تھے کہ ابھی کوئی نہ کوئی حملہ ضرور ہوگا لیکن دوسری جانب انہوں نے سرجھکائے ہوئے کہا کہ ہم نئی تخلیق دنیا میں لا رہے ہیں۔ ہم حیران کہ شاعری میں کون سی نئی تخلیق۔ بہت پوچھنے کے باوجود انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا تاہم محض اتنا کہا کہ ”خیال چوری ہوجائے گا“ خدا کا کرنا دودن بعد وہی صاحب ہاتھ میں دیوان اٹھائے دکھائی دیے۔

پوچھا اس خیال کا کیا بنا بولے عجیب صورتحال ہے ’شاعر خیالی محبوباؤں کے تذکرے بڑے تزک وشان سے کرتے ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ ان تخیلات کی روشنی میں ایک محبوبہ کو سانچے میں ڈھال کر پھر اس پرکوئی غزل عرض کریں گے لیکن یہ تو بتاؤ یہ قد سرو کے بوٹے جیسا‘ نین نشیلے ’ہرنی جیسی چال‘ موتیوں جیسے دانت ’گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ‘ چاند جیسا چہرہ لچکتی کمر جیسے تیر ’چلے یوں کہ زمانہ رک جائے (گویاوہ محبوبہ نہ ہوئی کوئی ٹریفک کانسٹیبل ہوگیا) بہرحال ان تمام اوصاف کو اکٹھا کر کے جب ایک محبوبہ کی شکل بنانے کی کوشش کی تو ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آ سکا۔

پھر سوچا کہ چلو پہلے اس محبوب جاں کو کاغذ پر اتارا جا ئے اب آپ خود ہی وہ تصویر دیکھئے اور پھر مجھے بتائیے کہ یہ کوئی انسان ہوسکتا ہے۔ یقین کریں جونہی اس تصویر پر نظر پڑی یوں لگتا تھا کہ ایک لمبے چوڑے اور خاردار درخت پر کسی نے چاند کو رکھ دیا ہو ’البتہ وہ درخت کہیں بالکل دائیں طرف اور کہیں بالکل بائیں طرف دکھائی دیتا تھا۔ وہ صاحب بولے اب بھلا بتائیے کہ ہم اس پر کیاغزل کہیں۔ بات تخیل کی ہورہی ہے ایک صاحب کو شاعری کا شوق ہوا‘ اور توکوئی حسینہ مہ جبینہ تخیل کے لئے دستیاب نہ ہوسکی البتہ محلے میں صفائی کے لئے آنیوالی ایک بھنگن کے عشق میں یوں مبتلا ہوئے کہ پھر غائب ہی ہو گئے؟

ایک دن سرراہ ٹکر گئے ہم نے پوچھا شاعری کا کیا ہوا؟ بولے ”بچہ“ ہم حیران ’یہ کیاجواب ہوا؟ بولے ”سال بھر پہلے شاعری جی سے شادی ہوئی تو انجام بچہ ہی ہونا تھا ناں‘ ’ہم پھر بھی نہ سمجھے پوچھا“ کتنے دیوان تیارہوئے ”بولے“ یار ایک سال میں ایک ہی بچہ ہو سکتا تھا یا جڑواں‘ یہ کتنے سے کیا مراد؟ ”ہم نے کہا اجی حضرت ہم شاعر کی بات کررہے ہیں اورآپ بچوں کی“ جواب ملا ”اسی بھنگن سے ہی تو شادی کرلی تھی ’‘ اب آپ یہ بھی مت سمجھئے گاکہ خدانخواستہ ہم تمام شعرا کے لئے ایسے الٹے سیدھے خیالات رکھتے ہیں۔ نہیں حضور۔ ۔ یہ تومحض ان کے لئے جو لہو لگا کے خواہ مخواہ شہیدوں میں نام لکھوانے پر تلے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).