ترکی میں گولن کا اسلام ہارگیا


\"usmanمیرا نام عثمان غازی ہے۔ یہ نام ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی سے متاثر ہوکر رکھا گیا۔ ابوالملوک غازی سلطان عثمان خان اول بن ارطغرل نے 1299 میں سلجوقیوں سے علیحدگی اختیار کرکے یورپ کے قلب میں ایک مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی۔

نام کا اثر ہے یا تاریخ اور حالات حاضرہ میں دلچسپی، مجھے ترکی سے بہت محبت ہے، ابھی یہاں ناکام فوجی بغاوت ہوئی تو مجھے ایسا لگا کہ ترک عوام نہیں بلکہ میں جیت گیا۔ مگر مجھے تکلیف ہوتی ہے کہ جب کوئی ترک عوام کی اس جیت کو انتہاپسندی کے اسلام کی فتح کہتا ہے۔

ترکی میں اگر اسلام جیتا ہے تو اس اسلام نے ایک دوسرے اسلام کو شکست دی ہے۔
جی ہاں!

اردوگان کے اسلام نے گولن کے اسلام کو شکست دیدی ہے اور ترکی کے یہ دواسلام اس فتح وشکست کے بعد بھی ایک دوسرے کے توانا حریف ہیں، یہ لڑائی دواسلام کے بیچ ہے، یہ اسلام اور کفر کامعاملہ نہیں ہے، یہ اسلام اور سامراج کا معاملہ بھی نہیں ہے، یہ خود کو امام اور خلیفہ ڈیکلئیر کرنے والے دواماموں کے بیچ میں تناؤ ہے۔ ترکی کے حالات سمجھنے بغیر لوگ ایسے تبصرے کررہے ہیں کہ گویا اردوگان ان کے چچیرے کا لڑکا ہے۔

اس فوجی بغاوت کی ناکامی میں سب سے بڑا کردار ترکی کی فوج کا تھا، جس نے اس بغاوت کا حصہ بننے سے انکار کردیا، ترکی کی فوج کو اسلام دشمن فوج تعبیر کیا جاتا رہا ہے، ایک اسلام پسند رہنما کا ایسا ساتھ دینا آپ کو حیرت میں مبتلا نہیں کرتا؟

ترک فوج نے طیب اردوگان کا ساتھ دے کراس تاثر کی بالکل نفی کردی ہے کہ فوج اور اردوگان میں کوئی تناؤہے، اس تاثر کا خاتمہ اردوگان کے اس مؤقف کے قطعا برعکس ہے جس کے تحت وہ ترک فوج کو اپنا حریف قراردے کر دنیا بھر سے بھی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے ترک فوج ہمیشہ سے اسلام پسندوں کے ساتھ رہی ہے، ترکی کی پیپلزپارٹی کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنا کر اس کو بدنام کرنے سے لے کر بلندایجوت کی موت کے بعد اردوگان کو ایک لیڈر کے طور پر سامنے لانے تک ترک فوج کا بڑا کردار ہے، دوسری بات یہ کہ تسلسل کے ساتھ جمہوریت اور ترک عوام کی جانب سے جمہوری رویوں کو پسند کرنے کی وجہ سے فوج کی وہ پوزیشن نہیں کہ وہ جمہوری حکومت سےتصادم کی کوئی راہ اختیار کرے اور طیب اردوگان جمہوریت کے تسلسل کے نتیجے میں فوج کیے صرف ایک ادارہ بن جانے کے فوائد سے فائدہ اٹھاناجانتے ہیں۔

فتح اللہ گولن کے حمایت یافتہ فوجیوں کی بغاوت کسی صورت قبول نہیں مگر فتح اللہ گولن کے مؤقف سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ گولن 2013تک اردوگان کے ساتھ تھا، کرپشن کے ایک اسکینڈل نے ان کے راستے جدا کیے اور گولن نے صرف اتنا مطالبہ کیا کہ حکومت میں شامل کرپٹ افراد کو سزادی جائے مگر سزا کیا ملتی، ترکی میں ایک عجب کھیل شروع ہوگیا۔ کرپشن کی تحقیقات کرنے والے افسران کو تبدیل کردیا گیا، ججوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا، میڈیا کے اداروں پر پابندی لگادی گئی، سوشل میڈیا پر پابندی عائد کردی گئی، سینکڑوں صحافی گرفتار کرلیے گئے اور گولن تحریک ترکی میں مقبولیت اختیار کرتی رہی۔

یہ اسکینڈل 2013 میں اس وقت سامنے آیا تھا، جب اردوگان پاکستان کے دورے پر تھے، اس سلسلے میں اب تک اے کے پارٹی کے 14سرکردہ افراد پر فرد جرم عائد ہوئی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ساری کرپشن کا براہ راست فائدہ اردوگان اور ان کی فیملی کو ہوا ہے ۔ ترک عوام فوجی اقتدار سے کتنی نفرت کرتے ہیں، اس کا اندازہ مجھے ایک ترک صحافی سے گفتگو کے دوران اس وقت ہوا جب میں نے میں نے اس سے ترک ڈکٹیٹر جنرل کنعان ایورن کی زندگی کے بارے میں سوال کیا تو وہ بھڑک اٹھا۔

اس نے مجھے بتایا کہ ہم اس بارے میں بات نہیں کرتے، میں نے اصرار کیا کہ وہ ڈکٹیٹر جیسا بھی تھا مگر ترکی سے مخلص تھا تو اس نے اقرارکیا مگر کہا کہ ترک عوام جمہوریت کے سوا کسی چیز کو کسی صورت کبھی بھی قبول نہیں کرسکتے۔

فوجی بغاوت کو ناکام کرنے کے لیے ترکوں کا سڑکوں پر آنا یہی ثابت کرتا ہے اور یہ وقت ایسا تھا کہ ترکی میں حزب اختلاف کی جماعتیں بآسانی اس بغاوت کی حمایت کرکے اردوگان کی حکومت کاخاتمہ کرسکتی تھیں مگر ترکی کی پیپلزپارٹی نے اہم کردار ادا کیا اور باوجود یہ کہ سی ایچ پی کے رہنما کمال اوغلو کوکچھ عرصہ پہلے صرف اس جرم میں ہزاروں ڈالر جرمانہ اداکرنا پڑاتھا کہ انہوں نے اردوگان پر تنقید کی تھی، جمہوریت کا ساتھ دیا۔

پاکستان کے مذہبی انتہاپسندوں نے اردوگان کی کامیابی کو ترکی کے جمہوریت پسند عوام کی کامیابی سمجھنے کے بجائے اپنے من پسند رنگ میں رنگ دیا، یہ بھی نہ سوچا کہ اردوگان جس شخص کے خلاف کامیاب ہوا ہے، وہ ایک مذہبی عالم دین ہے، یہ کیسی اسلام کی فتح ہے جس میں شکست کھانے والا بھی اسلام کا نام لیوا ہے۔

پاکستان کے مذہبی انتہاپسند اپنے ملک میں فوجی آمریت کے خواہاں ہیں مگر ترکی میں فوجی آمریت کی ناکامی پر شادیانے بجارہے ہیں، اگر کوئی ان سے سوال کرے کہ جمہوریت اگر ترکی میں اہم ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں تو شاید ان کے پاس اس کا جواب نہ ہو، امرحقیقی یہ ہے کہ اگر جمہوریت کو خطرہ ہو تو نوازشریف کے لیے بھی صدا اٹھائی جائے گی اور اردوگان کے لیے بھی ۔

ترکی میں آج دائیں بازوکا راج ہے تو اس کی بڑی وجہ ترک فوج ہے، فوج نے بائیں بازوکو بالکل کچل دیا، بائیں بازو کے افراد کی نسلیں فنا کردی گئیں، ان کو جیلوں میں ڈالاگیا، قتل کیا گیا، ملک بدرکردیا گیا، ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی کے بلند ایجوت سمیت بائیں بازو کے قابل عزت رہنماؤں پر کرپشن کے الزامات اتنے تسلسل کے ساتھ لگائے کہ عوام بدظن ہوگئے۔ ترک فوج نے بائیں بازو کو کچل تو دیا مگر اس کا سراسر نقصان اہلیان ترکی اور اسلام کو ہوا۔

میری رائے میںں دنیا کاکوئی بھی لیڈرجو مذہبی جنونی جذبات رکھتا ہو، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہو، استعمار کے ساتھ چلتا ہے چناچہ اردوگان نے بھی یہی کیا، امریکا کے ساتھ مل کر داعش کی حمایت کرنا شروع کردی، اس حمایت کے نتیجے میں داعش نے عراق اور شام میں جو ستم ڈھائے، وہ ایک الگ موضوع ہیں ۔ داعش اور ترکی کا ساتھ محض الزام نہیں ہے، تین روٹس کے ذریعے عراق اور شام سے آئل ترکی آتا ہے جو عالمی منڈی میں فروخت ہوتا ہے، ان روٹس کی تفصیلات سب سے پہلے روس کی جانب سے عالمی رہنماؤں کی کانفرنس میں سامنے لائی گئیں، سیٹلائٹ سے بنی تصاویر اور ویڈیوز بھی دکھائی گئیں، یہ ساری تفصیلات انٹرنیٹ پر اب بھی موجود ہیں۔

روس نے جب شام پر بم باری شروع کی تو داعش کو ترکی کے ذریعے ملنے والے سرمائے کو بند کرنے کے لیے شام میں آئل کی انہی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور 32آئل کمپلکس تباہ کردیئے، 11ریفائنریز اور 23آئل پمپنگ اسٹیشن بھی تباہ کردیئے گئے اور ایک ہزار سے زائد ایسے ٹرکوں کو نشانہ بنایا گیا جو تیل کی ترسیل کررہے تھے، ترکی نے روس کا جنگی جہازشامی حدود میں یونہی تباہ نہیں کیا تھا۔ ادھر داعش نے جب شام اور عراق کے مسلمانوں پر ظلم شروع کیا تو انہوں نے ردعمل میں ترکی کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور ترکی میں مسلسل دھماکے ہورہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اردوگان کی حکومت نے شامی مہاجرین کے کارڈ کو ترپ کے پتے کی طرح کھیلا، پہلے ان کوترکی سے یورپ کی جانب راستہ دیا اور جب یورپ اس افتاد سے بوکھلایا تو مہاجرین کا راستہ روکنے کی پوری پوری قیمت وصول کی، اب یہی شامی مہاجرین ترکی کے ظلم کا شکارہیں۔

ترک فوجی بغاوت کی بہرطور کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی مگر بنگلہ دیش میں لبرل انتہاپسند حسینہ واجد ہو یا ترکی میں مذہبی انتہاپسند اردوگان دونوں پر تنقید ضروری ہے۔ حسینہ واجد قومی جذبات ابھار کرلبرل ازم کے نام پر اسلام پسندوں کی زندگی اجیرن کررہی ہے تو اردوگان مذہبی جذبات بھڑکا کر بائیں بازو کی قوتوں کو کچل رہا ہےاور ایسے میں ترکی کا بیڑہ غرق ہورہا ہے۔

اردوگان نے ابھی حالیہ دنوں میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کئے ہیں، اسرائیل نے امدادی جہاز کے معاملے پر ترکی سے معافی بھی مانگی ہے، اب اس قضیئے کو کچھ یوں پیش کیا جارہا ہے کہ اردوگان نے ترکی سے سفارتی تعلقات بحال کرکے غزہ کی امداد کا بہانہ تراش لیا۔ یہی سوال آپ اہلیان غزہ سے پوچھیں تو بعید نہیں کہ وہ سوال کرنے والے کہ منہ پر تھپڑ رسید کردیں گے۔ غزہ کو امداد نہیں چاہیے، انہیں شناخت چاہیے اور کوئی بھی ایسا ملک جو اسرائیل کو تسلیم کرتا ہو، ان کا دوست نہیں ہوسکتا کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقصد مشرقی یروشلم کو اس کاجائز حصہ تسلیم کرنا ہے جو اہل فلسطین اور عالم اسلام کے مؤقف کے قطعا برعکس ہے۔

میڈیا کواستعمال کرکےایک خاص تاثر قائم کیا اور ایک جنونی لیڈر عوام پر مسلط کردیا گیا مگر یہ تسلط زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا، عوام کو باربار کوئی دھوکا نہیں دے سکتا، اگر اردوگان اپنی سرشت پر قائم رہے تو ان کا انجام جنرل ضیاالحق سے مختلف نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments