قندیل بلوچ… کیا زندگی جرم ہے؟


\"ramishقندیل بلوچ اس معاشرے کی وہ حقیقت ہے جس کا سامنا کرنے سے ہم ہچکچاتے ہیں۔کچھ لوگ اخلاقیات پہ پرکھ رہے ہیں، کچھ اقدار و روایات کے ذاتی و مروجہ معیار اٹھائے کھڑے ہیں اور کچھ کے خیال میں انہیں اپنے کرموں کا پھل ملا ، کچھ دانش فروشانِ ملت نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ ایک عورت کے گھر والوں کے پاس اور راستہ ہی کیا بچتا ہے۔ کچھ پوچھ سکتی ہوں؟ یعنی یہ کہنے کا حق مجھے حاصل ہے کہ اخلاقیات کا معیار میرے اور آپ کی نزدیک مختلف ہو سکتا ہے؟ ایسا ممکن ہے کہ جسے آپ اخلاقیات کا جنازہ نکالنا کہیں، میری نظر میں وہ ایک فرد کی آزادی ہو؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی عورت مجبور کی بجائے مختار ہونا پسند کرے؟ اگر وہ کسی تعلق کو ناپسند کرے تو اس تعلق کو ختم کر دے؟ اتنی گنجائش ہے کہ ایک عورت بس ہوسٹس بن کے زندگی گزارے تو آپ کی نظریں اس کے جسم کا طواف نہ کریں اور اسے عزت دے سکیں؟ غالباً پچھلے سال کی بات ہے دیپیکا پڈوکون کی ایک تصویر ایک بھارتی میگزین نے چھاپی، تصویر ایک غلط زاویے سے لی گئی تھی اور اس پہ دیپیکا نے احتجاج کیا۔ کسی خاتون کے اداکارہ، ماڈل ، فنکار یا پبلک فگر ہونے کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہوتا کہ اب تمام تر اختیارات آپ کے پاس ہیں کہ آپ جو چاہیں، جیسے چاہیں، بات کر سکیں۔

گزرے برسوں میں اپنا خواب پورا کرنے کی خاطر قندیل نے شادی ختم کی، یہ ہمارے یہاں جرم ہے۔آپ ایک ہی چھت کے نیچے لڑتے جھگڑتے رہیں یا ایک ہی بستر پہ لیٹے کسی اور کو سوچتے رہیں تو یہ ٹھیک ہے لیکن ایسا تعلق ختم کر دینا غلط ہے۔ سرائیکی وسیب کو جاننے والے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ یہاں کم عمری اور بےجوڑ شادیوں کی بھرمار ہے لیکن ایک پسماندہ علاقے کے پسماندہ طبقے کی عورت نے اتنی جرات دکھائی کہ اس تعلق کو ختم کر دیا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قندیل مالی طور پہ مستحکم ہونے کے بعد اپنے خاندان کی مدد کرتی رہی، کیا خبر قتل کی وجہ کوئی ایسا ہی مطالبہ ہو جو پورا نہ کیا گیا اور اس پہ نام نہاد غیرت کا پردہ ڈال دیا گیا۔ امکانات کی دنیا میں ایک قوی امکان یہ بھی موجود ہے کہ قتل بھائی نے ہی کیا ہو مگر قتل کروانے والا اس معاشرے کا ہی کوئی نام نہاد انتہائی معزز شخص ہو۔

اگر اسے محض غیرت کے نام پہ قتل سمجھا جائے تو اس پہ بات کرنے سے کیا حاصل؟ جب تک عورت کے ساتھ عزت اور غیرت وابستہ رہے گی تب تک یہاں ایسے ہی قندیلیں بجھائی جاتی رہیں گی۔ کیونکہ عورت بیوی ہے، بیٹی ہے، بہن ہے، ماں ہے، رشتوں کے بیچ گھن چکر بنی کوئی عجیب مخلوق ہے مگر انسان نہیں ہے اور جب وہ ایک آزاد انسان کی حیثیئت سے زندگی گزارنا چاہے تو اسے اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔غیرت کے نام پہ قتل کا ویسے بھی یہاں بہت فائدہ ہے کہ قتل کرنے والا اور معاف کرنے والا اکثر مقتول کے سگے رشتے دار ہوتے ہیں اور بعد میں معافی تلافی ہو جاتی ہے۔ جب تک ریاست اس قانون میں ترمیم کر کے فریق نہیں بنے گی، تب تک یہ معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ غریبی کا پیٹ بھرا جاتا رہا تو غیرت تھمی رہی اور پھر ایک ٹوپی اترنے اور میڈیا کی مشہوری کے بعد غیرت جاگ گئی، جب تک وہ عمران خان اور شاہد آفریدی کا تذکرہ کر رہی تھی تو کوئی جانتا نہ تھا اور پھر کچھ سیلفیوں کے بعد اسے قتل کی دھمکیاں تک ملنے لگیں۔ قندیل بلوچ کی ویڈیو دیکھنا عین کارِ ثواب ٹھہرا اور اس کے طرزِ حیات پہ انگلی اٹھانے کا حق یہاں ہر انسان کو حاصل ہے۔ اچھا ایک لمحے کو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ کو کسی کے طرزِ حیات پہ تنقید کا حق حاصل ہے تو کیا قندیل بلوچ کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق حاصل نہیں تھا؟

لوگوں نے قندیل کو دیکھا، اس کا مذاق اڑایا، ریٹنگ کی خاطر استعمال کیا، گھٹیا ترین الفاظ میں اسکا تذکرہ ہوا، میڈیا پہ ہزار انگلیاں اٹھا لیں تو ایک انگلی اس طرف بھی کر سکتے ہیں جو ایسے پروگرام میں دلچسپی لیتے ہیں ، جو دیکھتے ہیں ؟ جو سرچ کرتے ہیں؟ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ چسکے لینے اور ٹھرک پوری کرنے کی خاطر ویڈیو دیکھیں اور تبصرہ فرما دیں کہ گھٹیا حرکتیں کرتی ہے سالی! تُو مر کیوں نہیں جاتی؟ صاحب یہ سوشل میڈیا ہے، یہاں کوئی آپ پہ مسلط نہیں ہو رہا، کسی کی بات پسند آئے تو تعریف کر دیں، ناپسند ہو تو دوبارہ اس کی پروفائل پہ مت جائیں۔ یہ مگر منافقت کا خوبصورت ترین انداز ہے کہ ایک ویڈیو دیکھیں، کوئی پوسٹ پڑھیں اور اس پہ تبصرہ کریں کہ سالی رنڈی،گشتی، فاحشہ ، حرافہ عورت، تو ہے ہی جہنمی۔۔۔

بس اگر سب ہو چکا ہے تو ایک بات پہ شکر ادا کریں کہ آپ عورت نہیں، آپ کی زندگی ویسی نہیں جو کسی قندیل بلوچ کو اس معاشرے میں گزارنی پڑتی ہے۔ یہاں سب کے اپنے پیمانے ہیں کہ ایک عورت کو کیسے جینا چاہیئے، زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہو، دوپٹہ کتنے گز کا ہو، بال کیسے کٹے ہوں، بات کرنے کا انداز کیسا ہو۔۔۔ اور اس طےشدہ معیار سے ہٹ کر زندگی گزارنا جرم ہے۔ یہاں جینا جرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments