پلوامہ حملے پر چین کی خاموشی سے کیا سمجھا جائے؟


انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں نیم فوجی سینٹرل ریزور فورس یعنی سی آر پی ایف کے قافلے پر ہونے والا حملہ گزشتہ تین دہائیوں کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس حملے میں سی آر پی ایف کے کم از کم 46 جوانوں کی ہلاکت ہو گئی اور حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم جیش محمد نے قبول کر لی ہے۔

انڈیا نے اس حملے کا ذمہ دار براہ راست پاکستان کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن اس حملے کے بارے میں چین اور امریکہ سمیت متعدد ممالک نے اب تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جو باعث تشویش ہے۔

انڈیا کے ذرائع ابلاغ میں تاثر یہ ہے کہ اس حملے کے بارے میں پاکستان اور چین کا میڈیا تقریباً خاموش ہے۔ جس پر انڈیا میں حیرت کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ گلوبل ٹائمز کو چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اس اخبار نے بھی تقریباً خاموشی کا مظاہرہ کیا ہے۔

گلوبل ٹائمز میں حملے کی مذمت نہیں کی گئی ہے۔ اس اخبار نے پندرہ فروری کو صرف ایک چھوٹی سی خبر شائع کی جس میں صرف حملے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

اسی طرح چین کے خبر رساں ادارے ژنہوا نے بھی اس خبر کو نظر انداز کیا ہے۔ ژنہوا نے یہ ضرور شائع کیا ہے کہ اس حملے کی پرتگال نے مذمت کی ہے۔

چائنا ڈیلی نے بھی اس خبر کو نظر انداز کر دیا۔ چائنا ڈیلی نے اس بارے میں خبر تک شائع نہیں کی۔ تاہم چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوآنگ نے باضابطہ طور پر ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے اس حملے کی مذمت کی۔

شوآنگ نے کہا کہ ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں سے انہیں بھرپور ہمدردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ اور امید کرتا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔

تاہم جب ان سے مسعود اظہر کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ ٹال گئے۔

چین اور پاکستان کی دوستی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ چین پاکستان میں اپنے سی پیک منصوبے یعنی چین پاکستان اکنومک راہداری پر کام کر رہا ہے۔

اس منصوبے کے تحت چین پاکستان میں 55 ارب ڈالر کی رقم خرچ کر رہا ہے۔ انڈیا کی پاکستان اور چین دونوں سے ماضی میں جنگ ہو چکی ہے۔ چین پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی تعمیر و ترقی کے متعدد منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔

جب پلوامہ میں حملہ ہوا تو پاکستان کے اہم اخباروں نے اسے خبر کے طور پر نمٹا دیا۔ اس سے قبل پاکستانی میڈیا میں اتنے بڑے حملوں کو خاصی توجہ دی جاتی رہی ہے۔

پاکستانی میڈیا میں اس درمیان سعودی ولی عحد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان پر زور ہے۔

پاکستان کی حکومت نے جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر کے بارے میں بھی کوئی بیان نہیں دیا ہے تاہم اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے انڈیا کے الزامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا ہے۔ पुलवामा का मास्टरमाइंड मसूद अजहर का भतीजा

پلوامہ

پاکستانی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی سینیٹر اور سینیٹ سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے کہا ہے کہ پلوامہ میں انڈین سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ ایک سازش ہے تاکہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی پھر سے انتخابات جیت سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ’انڈین حکومت کو کسی بھی حملے میں پاکستان پر انگلی اٹھانے کی عادت ہو گئی ہے۔ یہ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن انڈیا اس میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔‘

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو 16 فروری کو دو روزہ دورے پر پاکستان آنا تھا۔ تاہم ان کے دورہ پاکستان میں ایک روز کی تاخیر ہوگئی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک پریس ریلیز میں سعودی ولی عہد کے دورے میں تاخیر کا اعلان کیا ہے۔

ابھی تک اس دورے کو چھوٹا کیے جانے اور اس میں ایک دن کی تاخیر کی وجہ واضح نہیں کی گئی ہے۔ اس درمیان سعودی عر نے بھی پلوامہ حملے کی مذمت کی ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 19فروری کو انڈیا جا رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انڈیا شہزادہ محمد بن سلمان کے سامنے پاکستانی زمین پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا موضوع بھی اٹھائے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس حملے پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ تاہم ٹرمپ نے 26/11 کی برسی پر ٹوئیٹ کر کے اس مسئلے پر انڈیا کے ساتھ کھڑے ہونے کی یقین دہانی کی تھی۔ لیکن اس بار پلوامہ حملے پر کوئی ٹوئیٹ بھی نہیں کی۔

تاہم اسرائیل کے صدر بنیامن نیتنیاہو نے ضرور ٹوئیٹ کر کے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس مشکل وقت میں وہ انڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایران نے بھی اس حملے کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی صورت ایسے حملوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp