کشیدگی کی فضا اور کلبھوشن کے معاملے پر سماعت
بین الاقوامی عدالت انصاف میں فروری کی 18تاریخ کو انڈیا یہ استدعا کرنے والے ہے کہ پاکستان کو حکم دیا جائے کہ وہ پاکستان میں موت کی سزا پانے والے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوش جادھو کی سزا معاف کرے وگرنہ پلواما حملے کے بعد خطے میں پائی جانے والی کشیدگی سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے۔
کلبھوشن جادھو جن کے بارے میں پاکستان نے دعوی کیا تھا کہ وہ انڈین بحریہ کے حاضر سروس آفسر ہیں انھیں سنہ 2016 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا جنھیں بعد میں پاکستانی فوج کی ایک عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
کلبھوشن کیس: عالمی عدالتِ انصاف فیصلہ آج سنائے گی
’منگل سُوتر اتروایا گیا اور جوتے بھی واپس نہیں کیے‘
ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف نے سنہ 2017 میں پاکستان کو کلبھوشن کی موت کی سزا کو اس وقت تک موخر کرنے کا حکم دیا تھا جب تک وہ انڈیا کی طرف سے اس سلسلے میں دائر کردہ درخواست کی سماعت مکمل نہیں کر لیتی۔
انڈیا کی درخواست کی سماعت پیر اٹھارہ فروری سے شروع ہو رہی ہے۔
انڈیا کے وکلاء کی ٹیم دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بنائی جانے والی اس عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کرے گی۔ جس کے بعد منگل کو پاکستان کلبھوشن جادھو کے بارے میں پاکستان میں انڈیا کے لیے جاسوسی کرنے اور مبینہ طور تخریب کارانہ کارروائیاں کرنے کے شواہد عدالت کے سامنے رکھے گا۔
انڈیا کے مطابق کلبھوشن انڈین بحریہ کا سابق اہلکار ہے اور انھیں اغوا کر کے پاکستان لے جایا گیا۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت کلبھوشن تک قونصلر سطح کی رسائی نہ دے کر وینا کنونشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
اور انھیں پاکستان میں جاسوس، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات میں پاکستان میں ایک فوجی عدالت نے 10 اپریل سنہ 2017 میں موت کی سزا سنائی تھی۔
پاکستان نے سنہ 2017میں کلبھوشن سے ان کی اہلیہ اور ان کی والد سے کی ملاقات کروائی تھی جس پر انڈیا نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان میں دونوں خواتین کو ہراساں کیا گیا۔
سنہ دو ہزار سترہ میں پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے کلبھوشن کی سزا موخر کرنے کے حکم پر بڑے ٹھنڈے طریقے سے علم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حکم سے ان کی سزا موت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وہ اپنی جگہ قائم رہے گی۔
ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں اس معاملے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد حتمی فیصلہ آنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
آخری مرتبہ عالمی عدالت انصاف میں دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 1999میں آمنا سامنا ہوا تھا پاکستان بحریہ کے ایک جہاز کو نشانہ بنانے کا معاملہ پاکستان نے اس بین الاقوامی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس واقعہ میں سولہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بین الاقوامی عدالت نے دونوں ملکوں کا موقف سننے کے بعد یہ فیصلہ دیا تھا کہ وہ اس طرح کے معاملات میں مداخلت کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
- ’نیوزی لینڈ کرکٹ کا پاکستان سے مذاق‘ - 18/04/2024
- ’قدرت سے چھیڑ چھاڑ‘: ’جیو انجینیئرنگ‘ کیا ہے اور متحدہ عرب امارات میں طوفانی بارشوں کے بعد اس کا ذکر کیوں ہو رہا ہے؟ - 18/04/2024
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).