عوام کے ترجمان: بے زبان


میں ہر صبح اس نیت سے اٹھتی ہوں کہ صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دوں گی اور ایمانداری پر کبھی سمجھوتا نہیں کروں گی چاہے کئی روز فاقے کیوں نہ کرنے پڑیں مگر وہ دور کھڑی نیلی موٹر سائیکل مجھے کافر لگتی ہے جو پٹرول کے بغیر ایک قدم نہیں چلتی۔ میں اس کی مالک ہوں‘ میرا ساتھ بھی چھوڑ دیتی ہے۔ مجھے ہر روز خوف آتا ہے کہ کہیں کسی دن اس کا پیٹ بھرنے کے پیسے بھی ختم ہو گئے۔ تو کیا ہو گا؟ اور اگر یہ بے ایمان ہو گئی تو میں کیا کروں گی؟

حالات اس قدر کشیدہ ہیں کہ ان دنوں میں اگر آپ مسکراتے ہوئے کہیں پائے جائیں تو آپ پر حرام کھانے کا ٹیگ ویسے ہی لگ جاتا ہے‘ کیونکہ جمع پونجی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دو وقت کی مل جائے یہی غنیمت ہے۔ اس لئے درد بھری مسکراہٹ کو کامل عقیدہ سمجھنے والے آپ کو کہیں نہیں ملیں گے۔ اسکرین کا نشہ ہی بہت ہے کہ غم بانٹنے کے لئے؛ سیگرٹ اور چرس بھی کسی کام کی نہیں ہیں۔ پھر کیا کیا جائے؟ میں کرپشن کے سخت خلاف ہوں شاید اس لیے کیوں کہ گرم خون میں ابھی جذبہ تازہ ہے اور تربیت دماغ پر سوار ہے۔

پھر اس بات کا بھی ڈر کہ ایک ذرہ بھی حرام خون میں داخل ہو گیا تو ناپاک ہو جاوں گی اور ایسا لگتا ہے جیسے جسم سے بو آنے لگے گی اور دنیا تو مجھے جوتے مارے گی ہی عزرائیل بھی جان نکالتے وقت سو بد دعائیں دے گا۔ دوسری طرف کسی ایونٹ کی کوریج پر جاتے ہی جب کوئی آفر کیمرا مین کو ہو تو میں نہیں روکتی۔ آنکھیں بند کر لیتی ہوں کہ کچھ دیکھا ہی نہیں کیونکہ میرے سامنے فورا منی کی شکل آجاتی ہے جو بابا کو دیکھتے ہی کھلونے مانگے گی یا باہر جانے کی ضد کرے گی۔

مظلوموں کی فوٹیج بناتا، انصاف کی اپیلوں کو کیمرے میں ریکارڈ کرتا یہ کیمرا مین بھی تو کتنا مجبور ہے ناں۔ اگر میری آنکھیں بند کرنے سے ایک دن وہ اپنی اولاد کے سامنے شرمندہ نہیں ہو گا تو میرا کیا جاتا ہے؟ اب کئی لوگ میری مخالفت کریں گے کہ یہ بھی حرام ہے تو بھئی میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ میں یہاں بے بس ہو جاتی ہوں۔ گاڑی میں مجھے جائے وقوع تک لے جانے والا ڈرائیور جب بے ایمان ہوتا ہے تو مجھے گنہگار نہیں لگتا۔

کیونکہ وہ ایمانداری سے اپنے فرائئض سر انجام دے رہا ہے تو کیا ہوا کہ وہ دیہاڑی لے رہا ہے۔ حق حلال کی کمائی تو تین ماہ سے نہیں آئی وہ کیا کرے جس کے چار بچے ہیں۔ بیوی سے روز کی لڑائی اور بچوں کے سیکڑوں سوال۔ وہ کہتا ہے میں آفس جاتا ہوں۔ بیوی شک کرتی ہے کہ نشہ کرتا ہے اس لئے ایک ٹکا گھر نہیں لاتا۔ پتا نہیں کس ماں کو دیتا ہے؟ جناب والا۔ میڈیا کی مائیں سب اکیلی ہڑپ کر جاتی ہیں۔ ان کے پلے صرف لعن طعن آتی ہے جو پیسے مانگنے پر نوکری سے نکال دینے کی دھمکیوں پر ختم ہوجاتی ہے۔ ان گردش ایام میں پیدا ہوتا ہے ”بکاؤ صحافی“۔ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے والے کو اب آپ گھٹیا نہ کہیں۔ نہیں نہیں میں دفاع نہیں کر رہی، میں صرف انتہائی محبت کے ساتھ ان کٹھ پتلیوں کو جھنجوڑنا چاہ رہی ہوں جو دولت کے نشے میں خود سراپا رقص ہیں اور ماتحت لوگوں کے جذبات کو منجمد کیے ہوئے ہیں۔

خدارا ہمارے گونگے پن کے حکیم بنیں۔ صحافت کے بیوپاریوں پر چھاپے ماریں۔ گدلا پانی ہے مچھلیاں نہیں۔ مچھلیاں بھوکی ہیں، مگرمچھ مچھلیاں کھانے لگے ہیں۔ جو بچ گئی ہیں وہ جان کا خطرہ لئے جب ہاتھ پاوں مارتی ہیں تو گندی ہو جاتی ہیں اور پانی سے باہر جائیں کیسے، بے گھر ہوجائیں گی اور امید بھی ہاتھ سے جائے گی کہ چھت نہ سہی دیوار سے تو لگے ہی ہوئے ہیں۔ پس حکومت پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے والے اور عوام کے مسائل کی ترجمانی کرنے والے خود اپنے مسائل پر بے زبان ہیں۔

اس سارے فلسفے پر میں نیلی موٹر سائیکل کو تو بھول گئی۔ خیر اب کافر کا تذکرہ بھی بار بار کیا کرنا۔ پٹرول پر چلنا بند کرے تو ہم بھی مانیں۔ بھئی، اس کے نخرے تو کسی فیشن ایبل بہو کی طرح ہیں اور میڈیا مالکان خرانٹ ساس کا کردار بھرپور ادا کر رہے ہیں ان سب میں میں ایک مظلوم کنگلا خاوند ہوں جس کے دامن میں بد دعاوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).