اندر اور باہر کا زاہد!


ہرانسان اپنی سرشت کے ہاتھوں مجبورہے۔ اور بلاتفریق مذہب و مسلک اورعمر، طبیعت کی بے چینی اور مسلسل تلاش اس کا نصیب ہے۔ اگرمسئلہ صرف زن، زراورزمین تک کا تھا، تو جنت میں حضرت ِآدمؑ کے لیے یہ تمام چیزیں بہترین صورت میں موجود تھیں۔ اور ہر نعمت اپنی خوبصورت ترین صورت میں وافر اور دسترس میں تھی۔ مگر پھر بھی حضرتِ انسان سب کچھ ہونے کے باوجود صبر نہ کرسکا اور بے صبر نکلا۔ ”امر بالمعروف“ تو کیا مگر ”نہی عن المنکر“ پر کاربند نہ رہا۔ اور اپنے ساتھ ساتھ، پوری انسانیت کو بھی ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش اوردکھ میں ڈال دیا۔ خود بھی جنگلوں، بیابانوں میں سالہا سال تک بنا خوراک پوشاک ننگے پاؤں ”مکتی“ تلاش کرتارہا۔ اور اپنی پوری نسل کو بھی اسی راستے پر لگادیا!

اب یہ میرے خمیرکی بات ہے۔ میں نے ایک در کو چھوڑا تھا۔ اب دربدر ”کھجل“ ہونا اور ”لُورلُور“ پھرنامیرامقدر ٹھہرا۔ ایک سُکھ کے لیے، سالہا سال کے دُکھ جھیلتاہوں۔ جس دربار، قبر، سیڑھی، قبا، ردا، آستین، ہاتھ، پاؤں، سینہ، اور مدینہ کو سکھ کا باعث جانتے ہوئے، روتا پیٹتا، لہراتا، ہوش بے ہوش، وضوبے وضو، پاک ناپاک، ننگا یا اعلیٰ پوشاک، زخمی اور آبلہ پا یا غیرملکی جوتوں کے ساتھ، تنہایا مصاحبین، اور خوشامدیوں کی فوج کے ہمراہ پہنچتاہوں، توصرف لمحہ بھر یا چندساعت ہی ٹک پاتا ہوں۔

پھر جیسے کوئی قوت، کوئی سوچ، کوئی ان دیکھی طاقت، دھکے مارکرمجھے اُس درسے نکال دیتی ہے۔ یا طبیعت میں قدرتی طورپر ایک لہر سی پیدا ہوتی ہے۔ ایک اضطراب، ایک بے چینی اور عدم اطمینان۔ ! اور پھر بلامڑے، بلا پیچھے دیکھے، کبھی اس آسرا دینے والے کی طرف حسرت سے اور کبھی جان چھوٹ جانے اور کچھ نیا حاصل کرلینے کی مسرت میں، ایسے بگ ٹٹ، پاؤں سر پررکھ کر بھاگتا ہوں۔ جیسے چورنقب لگانے کے بعد، کامیابی سے سامان اکٹھاکرنے لگے، تو گھر والے، اہل محلہ کے ساتھ، ڈنڈے، سوٹے، روڑے، پتھر، دونالی، ٹوکے اوربرچھے لے کر، للکارتے ہوئے، اس کے پیچھے ماں بہن کی گالیاں، نعرے للکارے اور نسلوں کو خوبصورت القابات دیتے ہوئے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔

اور وہ پکڑے جانے کے خوف سے کبھی پیچھے دیکھتا ہے، کبھی ٹھوکرکھاتاہے۔ کبھی پتھر۔ مگر بے جان ہونے کے باوجود بھی اس کو بھاگناہوتاہے۔ اپنی زندگی کے لیے اپنے چرائے ہوئے سامان کو محفوظ مقام تک پہچانے کے لیے اور اگلی چوری کے لیے۔ اس کو بھا گنا پڑتاہے، مسلسل دوڑنا پڑتاہے۔ سرسے خون، پاؤں کے خون کے نشان اور پھٹے کپڑوں کے باوجود اس کو بھاگنا پڑتاہے۔ کچھ چور اس حاصل کو مٹھی میں بھینچ کر، سینے سے لگا کر، دیوانہ واربھاگ رہے ہوتے ہیں کہ پھر اچانک ”ٹھیڈا“ کھا کرمنہ کے بل گرجاتے ہیں۔

اور پھرغصے سے بپھرے ہوئے ہجوم سے اتنی مار کھاتے ہیں کہ لوگ اس کو ادھ موا سمجھ کر چھوڑجاتے ہیں۔ اوروہ جسم پر سیکڑوں چھوٹے بڑے زخموں کے باوجود، مسلسل رسنے، بہنے اور چلنے والے خون کے باوجود، کچھ وقت مردہ بن کر پڑے رہتے ہیں۔ پھر نیم وا آنکھوں کے ساتھ، ادھرادھر دیکھتے ہیں اور دوبارہ ”یاعلی“ کا نعرہ لگا کر بھاگ نکلتے ہیں۔ اور مارنے والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یا اللہ، یہ انسان ہے کہ جن اتنی مارکھا کر بھی بھاگ گیا۔

کچھ اس کے بچ جانے پر کفِ افسوس ملتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں ”یارچرسی سی، تے نشئی نوں تے سٹ بالکل وی نئیں لگدی۔ “ کچھ ایسے بھی ہیں، جو قابو آنے کے بعد ماربھی کھاتے ہیں، گالیاں سنتے ہیں اور پھر کسی انتہائی معززشخص کے مشورہ پر، ان کے گلے میں جوتیوں کا ہار، سراور بھنویں منڈوا کر، منہ کالا کرکے، رحمت کمہار کے جوان گدھے پر بٹھا کر، پورے گاؤں کا چکر لگوایا جاتاہے۔ اور وہ گدھے کی شرارتوں، چال اور آواز، اہلِ علاقہ کے کنکروں، پتھروں، ٹماٹروں، انڈوں اور جوتوں اور خوبصورت ماں، بہن اوربیٹی کی رہتی نسلوں تک کو متاثر کرنے والی پُرلذّت گالیوں کے باوجود، عجیب سی مستی میں، سر سے نکلتے ہوئے خون کو، آنکھوں کے اوپرسے نکل کر، گال اور داڑھی میں گرتے ہوئے، صاف کرنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔

اور ایک طمانیت اور سکون کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ لوگ تھک ہارکر، آہستہ آہستہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اور بالآخر وہ تنہا، پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ اور ایسے دھیمے سے مسکراتے ہیں کہ جیسے کہہ رہے ہوں ”بس، یہی کچھ تھا آپ لوگوں کے نیاموں میں، ابھی توسرورآنے لگا تھا۔ “ اور پھرکسی نئی منزل کی طرف چل نکلتے ہیں۔ اپنے سکون اور آرام کی تلاش میں اپنے سارے آلام لے کر۔ اور یوں انسان چلتا رہتاہے۔ مسلسل چلتا رہتاہے!

اگرمسئلہ صرف رزق کا ہوتاتو بنی اسرائیل۔ ”من وسلویٰ“ چھوڑ کر ساگ اور پات کیوں مانگتے۔ انسان کا مسئلہ زن، زر، زمین اوررزق کی تلاش نہیں، بلکہ سرشت کی ”بغاوت“ ہے۔ حضرتِ انسان ہر حال میں عدم اطمینان کا شکار رہے گا۔ جب تک ”وہ“ لاحاصل ہے اس کے حصول کے لیے ہر قسم کے ”کشٹ“ کاٹے گا۔ پوری پوری عمر، اَن دیکھی جنت، حوروں، غلمان، ریحان ورومان اور جوئے شیرکی خاطر ٹکریں مارتا رہے گا، جس کو، کبھی خود چھوڑکر آیاتھا۔ لالچ میں ہر اُس شے، اشیاء، مقام، مکان اورلامکان کی خاطر بے قراررہے گا، جو اس کی دسترس سے باہر ہے۔ جس کو چھونے، چکھنے اور پالینے سے وہ عاجز ہے۔ اور جونہی حاصل کرلے گا، چکھ لے گا، پالے گا، دیکھ لے گا تو پھر اس کو سنگِ میل تصورکرتا ہواپھرکسی اور انجانی منز ل کی طرف قدم بڑھا لے گا۔

میں بھی اپنے جد ِ امجد کی طرح ہوں۔ اس کی خوبیاں میری سرشت اور میری پشت میں موجود ہیں۔ میر ے اندرکا ”زاہد“ مجھے ”امربالمعروف“ سے دوررکھتاہے۔ ”نہی عن المنکر“ کی طرف مقنا طیس کی طرح کھینچتا ہے۔ میرے اندرکاگندمجھے ہمیشہ مقناطیس کی طرح کھینچتاہے۔ بے قراررکھتاہے۔ میں بھی دوسرے انسانوں کی طرح ملمع سازی میں ماہر ہوں۔ میں نے بھی اپنے چہرے پر پارسائی کا ماسک چڑھا رکھا ہے۔ انسان اندرسے اچھا ہو، نہ ہو، مگرہر انسان کی یہ ازلی خواہش ہے اور عین اس کی فطرت کا حصہ ہے کہ لوگ اس کو اچھا سمجھیں۔

اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔ تعریف کی جانی ہر انسان کی ضرورت ہے۔ موصوف ہونا خواہش ہے۔ ہر زانی، شرابی، جھوٹا، فریبی، مکار، عیار، شاطر، لالچی، کمینہ، بے ایمان، بددیانت اور بدکار شخص، دوسروں کی نظر میں اتنا ہی باوصف، باصفا، راست گو، پارسا، ایماندار اور دیانتداربن کر رہنا چاہتاہے۔ اورہروقت دانستہ اور نادانستہ طورپران جھوٹے القابات کے حصول کے لیے، اپنی سرشت سے تو جنگ کرتاہی ہے بلکہ اپنے اردگرد سے بھی مسلسل حالت ِجنگ میں رہتاہے۔ اندر اور باہر کا یہ تضاد بھی انسان کو مسلسل بے چین رکھتاہے۔ مضطرب رکھتاہے۔ ”نہی عن المنکر“ اور ”امربالمعروف“ کی خلاف ورزی، قانونِ قدرت سے رُوگردانی اور ذات وخواہشات کا تضاد، انسان کو پریشان رکھتاہے۔ مسلسل بے قرار رکھتاہے۔

یہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔ میں آج اسی مخمصے اور گنجلک صورتحا ل میں، ذات کے اندر اور باہر کے گنجل میں الجھا ہواتھا۔ ذات اور خواہشات کے بظاہرریشم سے زیادہ نازک دھاگے، غارِثور کی مکڑی کے جالوں سے زیادہ مضبوط تھے۔ اس ریشم میں فولاد کی طاقت اور مضبوطی تھی۔ یہ آ ہنی سنگل، میرے ہاتھ، پاؤں، گردن، میں اس وقت سے پڑاہے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔ ماں باپ کی عزت، بہن بھائیوں سے شرم، دوستوں سے پردہ، دنیاوی مقام، اہل محلہ کے سامنے بے عزتی کا خوف، معاشرتی طعنے، دیکھ لیے جانے اور پکڑے جانے کا خدشہ، الزامات اور ہر الزام کے بعد معاشرتی ردعمل کا ڈر، اوران تما م ڈر، خوف، جھوٹی عزت، اور شہرت کے فولاد سے بنے ہوئے یہ سنگل، میری طرح ہر انسان کے بدن پر کسی نہ کسی طورپر موجودہوتے ہیں۔

اور اس بھاری طوق کے بوجھ سے گردن جھک جاتی ہے۔ کلائیوں، ٹخنوں، اور گردن کے گرد موٹے ”گِٹے“ پڑجاتے ہیں اور بار اوربوجھ سے، نظر اور ہاتھ پاؤں نہ چاہتے ہوئے بھی انسان کے قابومیں رہتے ہیں۔ اور انسان پوری کوشش کے باوجود، نہ ان سنگلوں سے آزادی حاصل کرسکتاہے اور نہ اپنے اندر اور باہرکوایک کرسکتاہے۔ جو کوئی ان زنجیروں کو توڑکر طبل ِ جنگ بجاتاہے تو معاشرہ اور معاشرے کے مقدس لوگ، اس کو آزادی، دوئی سے آزادی، اور یکسوئی کی سانس لینے سے بہت پہلے، زہرکا پیالہ پینے پر مجبور کرتے ہیں۔

یا اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر، گردن، تن سے جداکرکے، زندہ کھال کھینچواکر، یا گدھے کی کھال میں بھروا کر، یا اینٹوں میں چنوا کر، اس کے آزادسانس اور خیالات کو قبض کرکے اس کو بغاوت کی سزا دیتے ہیں۔ مگرآزادی کا یہ نقارہ پورے عالم میں اپنی بازگشت لے کر گونجتا رہتاہے۔ مسلسل لوگوں کی سماعتوں سے ٹکراتارہتاہے۔ اور ان فتاویٰ کے دل دماغ اورشب وروز پر ایسے غلبہ پا لیتاہے کہ ان کی زندگی موت سے بدتر اور مرنے والے کی زندگی اس کے خیالات کی طرح زندہ رہتی ہے۔ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتی ہے!

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik