آتش۔ جوانی اور اللہ کی کہانی


یہ اُس دور کی بات ہے جب آتشؔ یقینا مرچکاتھا مگر آتش جوان تھا۔ جب جسم میں ہر وقت ہلکی ہلکی اینٹھن سی رہتی ہے۔ گالوں میں سرخی ایسے دوڑتی ہے جیسے پیوندکاری کر نے کے بعد لگائے جانے والے ہرپودے پرسرخ اور سفید گلاب، شباب کی مانند نمودارہوتے ہیں۔ ماتھے پر رنگت سے ماورا، نورکی لہریں رقص کرتی ہیں اور نظر نہیں ٹکتی اور غور سے دیکھنے پرآنکھوں کو سکون ملتا ہے، دل سے دُعا نکلتی ہے ”اللہ جوانی کو بے داغ رکھے۔ “ مگر وہ جوانی ہی کیا جس پر داغ نہ ہو۔

جسم میں چلتے پھرتے بجلیاں بھری رہتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہر وقت لاکھوں وولٹ کا کرنٹ دوڑ رہاہو۔ رگوں میں متحرک پارہ۔ کروٹیں لے رہاہوتاہے۔ اور ادھر سے اُدھر کبھی دماغ اور کبھی ریڑھ کی ہڈی سے ہوتاہوا موٹی موٹی رگوں میں سے اپنی منہ زوری کے بوتے پر راستہ بنانے کی کوشش کرتاہے۔ اس متحرک زندگی سے بھرپور۔ زندگی سے، انسان کے جسم میں ایک نہ ختم ہونے والی آگ بھڑکی رہتی ہے۔ جوکانوں کو سرخ، گالوں کوشہابی، ہونٹوں کو گلابی، جسم کو آفتابی، آنکھوں کو شرابی اور رگوں میں آتش بھر کرایک ایساکرنٹ پیداکردیتی ہے کہ اگر اس پربروقت قابو نہ پایا جائے تو اس متحرک آگ اورلاوے کے راستے میں آنے والا سب کچھ جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔ ہاں مگراس آتش فشانی کے بعد پہاڑ کے پہاڑ جیسے سینے اور تن بدن میں ٹھنڈضرورپڑجاتی ہے۔ ایک سکون، ایک ٹھنڈک جسم اور دماغ اور جذبات کو عطا ہوتی ہے۔ یہ شایدخطاہوتی ہے۔ ! اس پر قدرت اور قابوصرف اولیا کو عطا ہوتی ہے۔ !

میرا اُس کاتعلق شاید صرف دو ٹیلی فون کالز، چند ایس ایم ایس اور وٹس ایپ کی کچھ مختصر سی گفتگو کا تھا۔ ہاں بلال اس کامحرک ضرورتھا۔ پتہ نہیں کیوں وہ ہمیشہ یہ سوچتا ہے کہ مجھے کسی کی ضرورت ہے۔ ! کسی کی بھی۔ کس لئے۔ کیوں شاید وہ مجھ سے بہتر سمجھتا ہے مگر۔ میری زندگی تو چند کتابیں اور کالج جانے تک ہے۔ صبح نکلوکمرے کے واحد بیڈ کے نیچے پڑی استری نکالو۔ جائے نماز جس پر نماز تو کبھی ادا نہیں کی۔ بس روزانہ کالج کی ٹراؤزر اور شرٹ استری کرنے کے لئے، جھاڑ کر زمین پر بچھاؤ اور جلدی جلدی۔ استری کو نمبر 6 پر کر کے، ایک دفعہ ادھر اور ایک دفعہ ادھر گھماؤ۔ کپڑ ے تیار۔ کالے جوتے برش کے بجائے گندے کپڑے سے تھوک کر چمکا لواور سڑک پار کرکے کالج چلے جاؤ۔ اتنی سی کل زندگی تھی سادہ اور آزاد!

کالج کی سرخ چھوٹی چھوٹی اینٹوں والی پرانی بلڈنگ، ٹاور، چھوٹے چھوٹے کمرے۔ و ہی راستے، کتابیں، نوٹس اور واپسی کا سفر اور پھر ہاسٹل کا وہ کمرہ۔ جو میری سستی اور کاہلی کی وجہ سے پڑنے والے گندکی بدولت، مجھ سے یقینا تنگ آگیا تھا۔

نماز نہ پڑھنے کے باوجود بھی میرے سرہانے ایک تسبیح ضرورہوتی تھی۔ اور کبھی کبھار جب امتحان نزدیک ہوتے یا کسی کلاس فیلو سے نئی محبت ہوجاتی، توپھر ”منکے پر منکا ٹھا ہ منکا، مارتے“۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازپڑھتے۔ روروکراللہ میاں سے اُس کو مانگتے۔ لمبی لمبی دعائیں مانگتے اور پھر دُعا کے ہر حرف میں اللہ کی بجائے اُس کو مانگتے۔ کسی بابے نے کہا، آدھی رات کے بعد فلاں کلمہ پڑھو، کسی نے کہا چاندکی طاق راتوں کو نفل پڑھنے کے بعد فلاں آیت کا وردکرو، نفلی روزے اور افطاری کے وقت کئی دن تک دعائیں، پھرداڑھی بڑھا کر ”اس“ کے آس پاس بیٹھ کر فلسفیانہ باتیں بھی کرتے تھے۔ یوں کچھ دن کے بعد نتیجہ آجانے یا اپنی نئی محبت کو کسی دوسرے کے ساتھ Dateپرکار میں جاتے ہوئے دیکھنے کے بعد، دل ایک بار پھر ٹوٹ جاتاتھا۔ اور پھر تسبیح اور اللہ میاں دونوں سے رابطہ بھی اگلے عشق اورامتحان تک ٹوٹ جاتاتھا یا وقتی طور پر اللہ میاں روٹھ جاتا تھا۔

بلال کی مہربانی سے میری اس سے پہلی ملاقات وٹس ایپ پر Massagingکی صورت میں ہوئی۔ ہیلو، ہائے کے بعد ملاقات کے وعدے پر بات ختم ہوگئی۔ (Display Picture) DP کافی اشتہا انگیزاور اپنے اندربے شمار معنی لئے ہوئے تھی۔ ترچھی نظر، سیاہ گنگھریالے بال، جن کی ایک لٹ گال کو چوم رہی تھی۔ اور پتا نہیں کیوں سینے کو ڈھکنے والی قمیص، تصویرکے اندرسے نیچے کی جانب ڈھلک ڈھلک جارہی تھی اورابھاروں کو مزید نمایاں کررہی تھی۔ اشتیاق بڑھ گیا یا جسم میں گردش کرنے والے پارہ کی رفتار۔ مگر دل بار بار قمیص کے اُس پار دیکھنے کو کرتاتھا۔

ہاسٹل کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ نہ ماں کا خوف نہ باپ کا ڈر۔ مکمل شرافت کے باوجود بھی ایک آدھ دیوارپر کسی خاتون کی نیم برہنہ یاکافی حد تک غربت سے بھرپورتصویر ہروقت جذبات میں تلاطم بھرنے کے لئے ضرورموجودہوتی ہے۔ اور پھر قہر درویش برجان درویش۔ !

بے قرارہوکرکئی بار فون کیے۔ جو اب ندارد!

دل بڑابدتمیز ہے جہاں مطلب ہووہاں خود ہی توضیح اور بہانہ ڈھونڈلیتاہے۔ اسے فون کرنے بعد جب ایس ایم ایس اورجواب نہ ملتا، تو مصروفیت کا جواب خودبخود اپنے پاس سے دے لیتے تھے۔ بار بار فون کے اوپر سے بٹن دباکر سکرین کا جائزہ، نوٹیفکیشن بارکو دیکھا، مگر یہاں فرصت ہی فرصت تھی۔ وہاں مصروفیت ہی مصروفیت تھی۔ جتنا دیر سے جواب موصول ہوتا تھا۔ شدت میں اضافہ ہوتا۔ میر ی پوری کوشش کے باوجود وہ ڈھب پہ نہیں آرہی تھی۔ میری روحانی ضرورت تو وہ تھی نہیں، مگرجسمانی ضرورت نے میرے پورے جسم کو مکمل طور پر بے بس کردیاتھا۔

BAکے پیپرسر پر تھے مگرسر کہیں اور تھا۔ سر کے اندر تو ”صدف“ تھی۔ ایک بار پھر جائے نماز جھاڑپونچھ کرچارپائی کے سرہانے رکھا۔ وضوکیا اور رات کے آخری پہر نمازعشاء پڑھنے میں مصروف ہوگئے۔ نفل پڑھ کر تسبیح پڑھی اور اللہ میاں سے اپنی نئی محبت کے حصول کے لئے گڑگڑاکر انتہائی خشوع و خضو ع سے دعامانگی۔ اگرمسئلہ صرف دل ودماغ کا ہوتا تو یقینا نماز، وضو، تسبیح کی تقدیس سے ٹھنڈپڑجاتی۔ مگر مسئلہ تو نفس کا تھا۔ جو باربار سر اٹھاتاتھا۔

جسم میں گرمی بھر دیتا تھا۔ دوران رکوع بھی اس کے مرمریں بدن اور مخروطی انگلیوں، دودھیاں گنبدوں اور گولائیوں اور نیم واہ گلاب کی پنکھڑیوں اور کلیوں کے خیالات جسم کے راستے دماغ پر سوار رہتے اور کبھی صرف فاتحہ کے بعد رکوع، کبھی قیام سے سیدھا سجدے میں، کبھی تین تین سجدے، کبھی دوکے بجائے تین یا ایک رکعت کے بعد سلام پھیر لیتے۔ اللہ میاں کا نام اور اللہ کا کلام ضرور مگر دماغ اور جسم میں تمام ”اجسام“ اور ان کے مسحورکن لذت سے بھر پور صبح شام رہتے تھے۔

جب شدت اور طلب میں زیادہ اضافہ ہوتا تو میں اللہ میاں کو چھوڑ کر اس مہ وش کے حصول کے لئے داتا صاحب پیدل ہی چل دیتا۔ کالج یا ہاسٹل سے نکلیں، کچہری عبورکرنے کے بعد، ایک کربلاگامے شاہ اور 18 دکانیں ہی تو ہیں درمیان میں۔ خیر داتاصاحب بھی بہت سیانے نکلے۔ ان کو بھی بالکل کلیئر پتا تھا یہ کس لئے ڈرامے کررہاہے۔ سووہاں بیٹھنے کا بھی کوئی خاطرخواہ فائدہ نہ ہوا۔ مگر نماز، روزہ، اللہ میاں، داتا صاحب، ان سے تعلق شدید ہوتا گیا۔

ایک عورت بندے کو اس حدتک تبدیل کرسکتی ہے تو اگرانسان اُس کے خالق کے ساتھ محبت کرلے تو اس کو کیا کچھ عطا ہوسکتا ہے شاید اس کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ انسان کی محبت میں انسان خود کو بھول جاتاہے اور فناکرلیتا ہے۔ مگر لافانی کی محبت میں فنا ہو جائے تو یقینا ہمیشگی کو چھو لے۔ فانی کی محبت میں فنا ہونے کے باوجود انسان فنا ہوجاتا ہے۔ جب کہ لافانی کی محبت میں فناہوکر انسان ہمیشہ کے لئے لافانی ہو جاتاہے۔ فانی سے محبت فنا جبکہ لافانی سے محبت لافانی کردیتی ہے۔ امرکردیتی ہے۔

ایک عام گوشت پوست کی بنی ہوئی عام سی تخلیق، انسان کو تخت و تاج، گھر باہر، ماں باپ اور زندگی کھونے پر مجبور کردیتی ہے۔ اس وقتی ضرورت یا بے وقتی آفت کے ہاتھوں مجبور ہوکر انسان سب کچھ تباہ وبربادکرلیتاہے۔ جب کہ اس سب کا خالق، مالک اور نور کے ہزاروں جلوؤں میں پنہاں ”عزیز حکیم ’‘ کے لئے ہم کچھ بھی کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جس کی سب عطا ہے۔ مگر جلدباز انسان کے سارے سودے خسارے اور گھاٹے کے ہوتے ہیں۔ اس لئے فطری بے صبر انسان، اصل کو فراموش کرکے، بے اصلوں کے پیچھے عمربھر رسوا ہوتا رہتا ہے۔ اصل اور حقیقی کی طرف رجوع میں زندگی اور فلاح پنہاں ہے۔

میری کلاس، میس اور سینماکی غیرحاضری سے پریشان ہوکر ایک دن بلال میرے کمرے میں آدھمکا۔ اُس ازلی خباثت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ، بولا خان صاحب کیا ہوگیا ہے؟ یہ کیا حال بنا لیا ہے؟ میں نے کہا یارمحبت ہوگئی ہے۔

بھائی۔ محبت۔ کس سے۔ پھر سے۔ یار بس کر خداکا خوف کر۔ نکل آاس بکواس سے باہر۔ تمہیں تو روز محبت ہوجاتی ہے۔ بلال شرارت سے بولا۔ میں نے کہا یار میں اس بار بالکل سیریس (Serious) ہوں اور پتاہے یار وہ بہت خوبصورت ہے۔ وہ۔ میرے دماغ سے نکلتی ہی نہیں۔ سوتے جاگتے خوابوں میں بھی خراب کرنے لگی ہے اب تو۔ !

بلال نے ہاتھ پر ہاتھ مارکرقہقہہ لگایا اور بولا ”یار یہ تیری پرانی بیماری ہے تمہیں ہرخاتون ہی خوبصورت اور حور پری لگتی ہے۔ اور پھر چندملاقاتوں کے بعد وہ بری ہوجاتی ہے۔ کوئی بات نہیں ابھی یہ خواب میں آرہی ہے جب حقیقت میں آجائے گی توایک دو بار کے بعد یہ بھی بری لگنے لگے گی پر اب کی بار یہ ہے کون۔ !

صدف۔ یار، وہی صدف جس کا تونے مجھے نمبر دیا تھا۔ God۔ my۔ Ohhh۔ خداکے واسطے۔ یہ بکواس اور ڈرامے بازی مت کرو۔ پتا ہے وہ کون ہے۔ اور کیا کرتی ہے۔ وہ کونے میں پڑی بن باز وکی کرسی کو گھسیٹ کر میری چارپائی کے قریب کرتے ہوئے بولا۔

میں نے کہا یار ملے گی تو پتا چلے گا بھائی۔ ابھی تو میں اس کی تصویر کاہی اسیرہوں۔

بلال نے میری صورت ِحال دیکھی، کچھ سوچا اور بولا۔ یار میں تیری کل اُس سے ملاقات کروادوں گا۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ پر وہ ایسی نہیں جیسی وہ نظرآرہی ہے۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔

میری جسمانی ضرورتوں نے میری سمجھ کے تمام خانے اس وقت بند کرکے رکھے ہوئے تھے۔ اورویسے بھی اگر مجھے سمجھ آنا ہوتی تو اتنی نمازوں اور روزوں میں اللہ نے میرے دماغ میں ڈال ہی دینی تھی۔ اس لئے اب بات سمجھ سے باہر اور فہم سے بالاتر تھی۔ کیونکہ وہ میری خواہش تھی اور خواہش کی بنیاد پر میری دعاکامرکزاور عبادت کا محورتھی۔

انسان کی بے شمار خواہشیں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک اچانک Pulse یا Impulsive Feeling یا Urgeدل میں اٹھتی ہے۔ اور وہ بالکل اُسی طرح حواس پر طاری ہوجاتی ہے جس طرح برسات میں سیاہ بادل آنِ واحد میں چارسو سیاہی پھیلا دیتے ہیں یا آخری رات کا چاند جب غروب ہوتا ہے تو تاریکی ہر روشن چیز پر قبضہ کرلیتی ہے۔

خواہش اچھی اوربری ہوسکتی ہے۔ اس میں انسان جلتے ہوئے کوئلے کو ہیرا سمجھ کر منہ میں ڈال لیتا ہے۔ تیل چھڑک کر خود کوآگ لگا لیتاہے اس کی راہ میں اپنے آپ کو کاٹ لیتا ہے۔ جب خواہش کا ہیجان اور دعاکے پورا ہونے کا امکان ختم ہوجائے تو انسان بے بس ہوجاتاہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتاہے جب نا اُمیدی حصول میں ناکامی، انسان کواپنے آپ کو ختم کرنے پر مجبورکردیتی ہے۔ اور وہ تصورات کی دنیا میں۔ دنیا سے گزرجاتاہے۔ اس کے احساسات فنا ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس لئے تو اس کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ بس ایک آہ، یا ٹھاہ کی آواز آتی ہے اور زندگی زندگی والے کی نظر کردی جاتی ہے۔

انسان اپنی خواہش کے حصول کے لئے تمام دنیاوی کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد خالق سے دعاکرتاہے۔ دعاجب خواہش کے زورپر ہوتو اس میں سب جائز ناجائز، اچھا براشامل ہوتاہے۔ مگر خالق دُعا میں شامل ہوکر انسان کو صرف وہ عطا کرتا ہے جو اس کے لئے بہترہو۔ کیونکہ خواہشات کا Impulseاور Urgeپر Baseہونے کی بدولت جائز ہونا ضروری نہیں۔ مگر خالق کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ ہمارے اندرکی غلاظت جاننے کے باوجودہمیں دھتکارتا نہیں۔

بلکہ جودعائیں پوری نہ ہوں یعنی ہمارے لئے اچھی نہ ہوں یا جائز نہ ہوں ان کا بھی صلہ دیتاہے۔ عورت کے لئے مانگی جانے والی دعاکے صلہ میں اللہ میاں تو ملنے سے رہے۔ پھر عورت ہی ملے گی چاہے طوائف ہویا پارسا۔ دُعا کبھی بھی مانگی نہیں جاتی بلکہ دی جاتی ہے۔ یہ رضا کارانہ فعل ہے۔ جو خلوصِ نیت کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے دل کے مالک کے لئے نکلتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik