حضرت ابراہیم ؑ کا اصل امتحان – مکمل کالم


کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لیے لے جاتے اور عین وقت پر خدا انہیں نہ روکتا؟ کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ خدا کا حکم نہ مانتے اور اپنے بیٹے کی قربانی کی نیت ہی نہ کرتے؟ کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابراہیم ؑبیٹے کو قربانی کی نیت سے تو لے جاتے مگر پھر ان کا ارادہ تبدیل ہوجاتا اور وہ راستے میں سے ہی واپس لوٹ آتے؟

آج دنیا کے دو ارب مسلمان عید الاضحیٰ منا رہے ہیں، یہ عید اس قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے جب خدا نے حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی سب سے عزیز شے اس کی راہ میں قربان کر دیں۔ اسلامی روایات کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہیں، یہ خواب وہ مسلسل تین راتوں تک دیکھتے رہے، پھر انہوں نے اس کا ذکر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ سے کیا اور کہا کہ خدا چاہتا ہے کہ میں اپنی سب سے پیاری چیز اس کی راہ میں قربان کردوں، حضرت اسماعیل ؑ نے والد کی تائید کی اور فرمایا کہ اگر خدا کی یہی منشا ہے تو آپ کو اس کا حکم ماننے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔

اسلامی روایت، یہودیت اور مسیحیت سے ذرا مختلف ہے، اسلام میں جس بیٹے کا ذکر ہے وہ حضرت اسماعیل ؑ ہیں جبکہ یہودیوں اور مسیحیوں کے مطابق وہ حضرت اسحاق ؑ تھے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے خواب کا ذکر بیٹے سے کیا تو بیٹے نے فوراً خدا کے حکم پر رضامندی ظاہر کی تاہم یہودی اور مسیحی روایات میں اس قسم کا ذکر نہیں ملتا۔ قطع نظر ان جزئیات کے، اصل واقعہ پر تینوں ادیان کا اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو خدا نے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا تھا اور وہ بیٹے کو قربان کرنے کی نیت سے لے گئے تھے مگر جب انہوں نے بیٹے کی گردن پر چھری رکھی تو عین وقت پر خدا نے بیٹے کی جگہ ایک مینڈھا بھیج دیا اور یوں آپ ؑ کی قربانی بھی قبول ہو گئی اور بیٹے کی جان بھی بچ گئی۔

سورن کرکگارڈ (Soren Kierkkegaard) انیسویں صدی کا ایک مغربی فلسفی تھا، اس نے اپنے قلمی نام سے Fear and Trembling کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی، اس کتاب میں اس نے حضرت ابراہیم ؑ کے واقعے کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیسے حضرت ابراہیم ؑ ایمان کے اس اعلی ٰ ترین درجے پر فائز تھے جہاں حکم ربی کو تمام آفاقی اصولوں اور اخلاقیات کے پیمانوں سے افضل سمجھ کر انہوں نے بیٹے کی قربانی کا فیصلہ کیا جو رہتی دنیا تک امر ہو گیا۔

کرکگارڈ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کا ایمان کامل تھا اور اس کی پختگی کا یہ عالم تھا کہ جب خدا نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر صحرا میں جا بسیں تو انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی کیونکہ انہیں علم تھا کہ خدا کے ہر حکم میں کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ خدا نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ ہم تمہاری امت کو پوری دنیا میں پھیلا دیں گے حالانکہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی اس وقت کافی عمر رسیدہ تھے۔ مگر آپ ؑ کا ایمان نہیں ڈگمگایا اور آپؑ نے خدا کے حکم کی تعمیل کر کے صحرا میں خدا کا گھر تعمیر کیا۔

اب خدا نے ان کا دوسرا امتحان لیا اور انہیں اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا۔ کرکگارڈ کہتا ہے کہ ہم لوگ اس واقعے کے صرف انجام پر غور کرتے ہیں جب حضرت ابراہیم ؑ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے چھری ہاتھ میں تھام لی اور خدا نے عین وقت پر مینڈھا بھیج کر بیٹے کی جان بچا لی جبکہ حضرت ابراہیم ؑ کی عظمت اس بات میں بھی پوشیدہ ہے کہ انہوں نے تین دن اس پہاڑ تک سفر کیا جہاں خدا نے انہیں قربانی کا حکم دیا تھا اور اس دوران خود کو اس بات پر آمادہ رکھا کہ دنیا کے اخلاقی قوانین، چاہے آفاقی ہی کیوں نہ ہوں، حکم ربی سے برتر نہیں ہوسکتے کیونکہ انسان خدا کی حکمت کو نہیں جان سکتا۔

کرکگارڈ نے Teleological suspension of the ethical کی اصطلاح استعمال کی جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بات کو اس کے مقصد کی بنیاد پر ثابت کیا جائے نہ کہ اس کی توجیہہ تلاش کی جائے۔ حضرت ابراہیم ؑ یہ جانتے تھے کہ دنیاوی اخلاقی قوانین کے تحت بیٹے کی قربانی درست فعل نہیں اور اگر ایک مرتبہ انہوں نے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی تو پھر یہ عمل واپس نہیں ہو سکے گا لیکن اس کے باوجود انہوں نے دنیاوی اخلاقی قوانین کو معطل کر کے اپنا فیصلہ اس ایمان کی بنیاد پر کیا کہ خدا کی حکمت ان دنیاوی قوانین سے ماورا ہے اور خدا کے کسی حکم کا ’مقصد غیر اخلاقی‘ نہیں ہو سکتا لہذا انہوں نے دنیاوی اخلاقی قوانین بالائے طاق رکھ کر خدا کے حکم کو فوقیت دی۔

یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے سمجھنا بے حد ضروری ہے ورنہ ہم کبھی یہ نہیں جان پائیں گے کہ کیوں حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے کے لئے آمادہ ہو گئے، یہ ایمان کا وہ درجہ ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ جیسا پیغمبر ہی پہنچ سکتا تھا کوئی دوسرا انسان نہیں۔ اصل میں یہ حضرت ابراہیم ؑ کا ایمان تھا جس کی قوت کی بنا پر انہیں یقین تھا کہ خدا ان کے بیٹے کو مرنے نہیں دے گا، اگر ان کا ایمان کمزور ہوتا تو وہ بیتے کی قربانی کا ارادہ ہی نہ کرتے۔ لیکن یہاں ایک باریک نکتہ مزید بیان کرنا ضروری ہے کہ اگر حضرت ابراہیمؑ کا ایمان تھا کہ خدا ان کے بیٹے کو بچا لے گا تو پھر یہ کسی قسم کا امتحان نہ ہوتا بلکہ چھری پھیرنے کی رسمی کارروائی ہوتی جبکہ خدا کو تو حضرت ابراہیم ؑ کا امتحان لینا مقصود تھا۔

سو یہاں ’یقین‘ اور ’ایمان‘ کا فرق سمجھنے کی ضرورت ہے، ایمان میں اس بات کی گنجایش موجود ہے کہ کوئی شخص غلط بھی ہو سکتا ہے مگر یقین کرنے کا مطلب ہے کسی چیز کے بارے حتمی رائے رکھنا۔ سو حضرت ابراہیم ؑ کو کامل یقین نہیں تھا کہ ان کا بیٹا بچ جائے گا مگر وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ حکم ربی کبھی حکمت سے خالی نہیں ہو سکتا، ایمان اور یقین کی یہ کشمکش ہی حضرت ابراہیم ؑکا امتحان تھی اور خدا کا یہ برگزیدہ پیغمبر اس امتحان میں سرخرو ہوا۔

کانٹ کا نکتہ نظر کرکگارڈ سے مختلف ہے۔ کانٹ ایسی اخلاقی اقدار کا قائل ہے جو آفاقی ہیں اور کسی بھی حالت میں ان میں تبدیلی کی گنجایش نہیں۔ ہم عام انسانوں کے لیے اس آفاقی اخلاقی ماڈل پر عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ پیغمبروں کے برعکس عام انسانوں پر نہ تو وحی نازل ہوتی ہے اور نہ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہو سکتے ہیں۔

چند برس پہلے مصطفی ٰ اکول نامی ایک ترک لکھاری کا مضمون نظر سے گزرا جس میں اس نے یہی بات کہی کہ عام انسان چونکہ خطا کا پتلا ہے اس لیے ہمیں خدا کی منشا کو سمجھنے میں محتاط رہنا چاہیے اور مذہبی احکام کی بجا آوری میں آفاقی اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، یہ بات خاص طور پر ہم جیسے فانی اور خطا کار انسانوں کے لیے ضروری ہے جن پر مذہبی احکام براہ راست منکشف نہیں ہوتے جیسا کہ انبیاء کرام پر ہوتے تھے لہذا ہمیں اپنی زندگیوں میں فکری استدلال سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments