بلوچستان اسمبلی میں سعودی منصوبوں پر اراکین کو اعتماد میں لیے جانے کی قرارداد منظور کر لی گئی


بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں گذشتہ روز صوبے کی قوم پرست جماعتوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ دورہِ پاکستان کے دوران متوقع معاہدوں کے پیشِ نظر شدید خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس حوالے سے ایک قرارداد بھی منظور کروائی ہے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سعودی عرب کے ساتھ آئل ریفائنری سمیت بلوچستان سے منسلک دیگر منصوبوں سے متعلق بلوچستان حکومت اور یہاں کے اراکین پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی ولی عہد کا دورۂ پاکستان

گوادر:’ریڈ زون میں مچھلیاں پکڑنا تو دُور، جانے کی بھی اجازت نہیں‘

ان خدشات اور تحفظات کے بارے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی ثنا بلوچ کا کہنا ہے کہ اس وقت سب کی توجہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر ہے۔ ان کی رائے میں بلوچستان کے حوالے سے کچھ لوگوں کی توجہ نیک نیتی کے ساتھ ہے جبکہ بعض کی بدنیتی کے ساتھ۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ان معاہدوں کے حوالے سے اعتماد میں لینے کی بات اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ پہلے جتنے بڑے منصوبے بنے ان سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

انوں نے کہا کہ پہلے سی پیک کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس سے بلوچستان کو بہت فائدہ ملے گا لیکن وہ بلوچستان کے لیے خواہشات کا ایک غبارہ ثابت ہوا۔ یہ کہا جارہا ہے کہ 62 ارب ڈالر کی مالیت کے سی پیک منصوبوں میں صوبے لیے کچھ نہیں۔

انھوں نے کہا کہ آئل ریفائنری کے لیے 35 ہزار ایکڑ اراضی دینے کی بات کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس منصوبے کے حوالے سے بلوچستان کے مفادات کو تحفظ دیا جائے اور بلوچستان حکومت سعودی عرب کے ساتھ شراکت داری کرے تو بلوچستان کو اس سے سالانہ دو سو سے چار سو ارب روپے تک کا منافع ہو سکتا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اصغر خان اچکزئی کہتے ہیں کہ ’ہم سابق فاٹا کے لیے ایف سی آر کو ظلم سمجھتے تھے لیکن بلوچستان میں حالات ایف سی آر سے بھی بد تر ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گوادر پر بلوچستان کے جو تحفظات ہیں ان کو ہر لحاظ سے دور کیا جانا چائیے۔

انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے میمبر قومی اسمبلی کے سہارے پر قائم ہے اس لیے اس کے سامنے لکیر کھینچی جائے کہ جو بھی معاہدے ہورہے ہیں اس پر بلوچستان اور اس کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔

بی این پی کے گوادر سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی، میر حمل کلمتی کا کہنا ہے کہ متعدد بار مطالبہ کرنے کے باوجود گوادر پورٹ کا معاہدہ بلوچستان اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے حوالے سے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا۔ اس کے باعث وہاں کے منصوبے لوگوں کے لیے ایک عذاب بن گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہرروز وہاں کی سڑکوں کو وی آئی پی موومنٹ کے نام پر بند کیا جاتا ہے جبکہ وہاں کے ماہی گیروں سے ان کے منہ کا نوالا چھینا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس علاقے میں مجوزہ آئل ریفائنری لگائی جارہی ہے وہاں مختلف حیلوں اور بہانوں سے غریب لوگوں کے نام کی اراضی کی الاٹمنٹ کو منسوخ کیا جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس اسمبلی میں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ سب کو گوادر کی اراضی کی ضرورت ہے جس کے پیش نظر یہ خطرہ ہے کہ کہیں گوادر کے لوگوں کو وہاں سے منتقل نہ کر دیا جائے۔

تاہم بلوچستان کے وزیر اطلاعات میر ظہور بلیدی نے کہا ہے کہ سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے بلوچستان اور اس کے عوام کے جو بھی مفادات ہیں ان کا بھرپور تحفظ کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp