بھارت میں کشمیریوں سے وحشت میں بدلتی نفرت


جموں کو وادیٔ کشمیر سے ملانے والی شاہراہ پرواقع ضلع پلوامہ کے ایک گائوں کے قریب بھارتی قابض افواج کے خصوصی دستے پر حملہ جمعرات کے روز ہوا تھا۔ اس واقعہ کے تین دن گزرجانے کے بعد اتوار کی صبح اٹھا ہوں تو بھارت کے کئی مرکزی شہروں کے مکین ٹویٹر پر اپنے ٹیلی فون نمبر دے رہے تھے۔

خوفزدہ ہوئے کشمیریوں کو دعوت دی جارہی تھی کہ اگر وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں تو ان لوگوں سے رابطہ کریں۔وہ پناہ کا بندوبست کرسکتے ہیں۔بھارت کے کئی مرکزی شہروں اور خاص کر دہلی سے آئے یہ ٹویٹس واضح انداز میں یہ بیان کررہے ہیں کہ خود کو مذہبی اور نسلی تقسیم سے بالاتر ہوکر ’’سیکولر‘‘ کہلاتے بھارت میں کشمیریوں سے نفرت اب وحشت میں بدل رہی ہے۔

شاید ویسا ہی ماحول بن رہا ہے جو ہٹلر کے زمانے میں یہودیوں کے خلاف جرمنی میں کئی دہائیوں تک برقرار رہا۔منافرت کی بنیاد پر اٹھی فسطائیت کی بدترین مثال۔ بھارت کے حوالے سے مگر یہ پہلا واقعہ نہیں۔اکتوبر 1984میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے بارے میں بھی ایسی ہی منافرت پھیلائی گئی تھی۔

میں نے اس منافرت کی شدت کو اس برس زندگی میں پہلی بار بھارت میں تقریباََ ایک مہینہ گزارنے کے بعد دیکھا تھا۔کشمیریوں کے خلاف منافرت کو ’’پھیلانے‘‘ کی بات میں نے بہت سوچ سمجھ کر لکھی ہے۔ پلوامہ میں حملہ ہوا تو بھارتی میڈیا کے کئی جید اینکرز نے خصوصی طورپرنسلوں سے بھارت نواز تصور ہوتے شیخ عبداللہ اور مفتی سعید کے ’’وارث‘‘ سیاست دانوں کی ’’حب الوطنی‘‘ پر سوالات اٹھانا شروع کردئیے۔

فاروق عبداللہ کی ایک وڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں سوال پوچھنے والی خاتون نے اسے طیش دلادیا۔فاروق عبداللہ کو اپنی بات ختم کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔حالانکہ کئی بار مقبوضہ کشمیر کا وزیر اعلیٰ رہنے والا شیخ عبداللہ کا بیٹا محض یہ حقیقت بیان کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ آج کا کشمیری نوجوان بھارتی ریاست سے فقط بیگانہ ہی نہیں تشدد کو مائل ’’باغی‘‘ بن چکا ہے۔

اس کے جذبات کو سمجھے بغیر پلوامہ کے واقعہ کو محض ’’پاکستان کی سرپرستی میں پھیلائی دہشت گردی‘‘ کا ایک ’’ثبوت‘‘بناکر دیکھنا یا دکھانا بدترین حماقت ہوگی۔فاروق عبداللہ سے گفتگو والی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ہی میرا ماتھا ٹھنک گیا تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اب ہر کشمیری کو بھارت میں ’’دہشت گردوں‘‘ کا حامی یا سہولت کار ٹھہرایا جائے گا۔

نفرت کا یہ پیغام میڈیا کے ذریعے سفاکانہ انداز میں پھیلایا گیا ہے۔اس پیغام کا فوری ردعمل ہمیں جمعہ کے روز جموں میں دیکھنے کو ملا۔ اس شہر کے مسلمان محلوں کو ہندوانتہاپسندوں نے گھیرے میں لے لیا۔پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ کئی گھر اور دکانیں جلیں۔کرفیو کا اعلان ہوا۔ اس کا عملی نفاذ مگر دیکھنے کو نہیں ملا۔

مسلمان محلوں کے مکین اتوار کی صبح تک اپنے گھروں میں محصور ہوئے بیٹھے ہیں۔کئی ایک کو قیام پاکستان کے فوری بعد کے وہ ایام یاد آنا شروع ہوگئے ہیں جب مہاراجہ کی پشت پناہی میں اس شہر میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تھا۔بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نے ایسا ہی رویہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طورپر اختیار کیاتھا اور تاریخ خود کو دہرانے کی عادی ہوتی ہے۔

مذہبی یا نسلی بنیادوں پر اُٹھی فسطائیت کو ’’ویری(The Other)‘‘ کی شدید ضرورت ہوتی۔اقلیت کے ایک مخصوص گروہ کو (Demonise) کیا جاتا ہے۔حکمران اشرافیہ یکسوہوکر اکثریتی طبقات کو بہت مکاری سے اس امر پر اُکساتی ہے کہ ’’ویری‘‘ ٹھہرائے گروہ کو عوامی غیض وغضب کا نشانہ بناکر ملیامیٹ کردیا جائے۔

ان کی زندگی اجیرن بنادی جائے۔گدھے سے گرکر کمہار کو ذمہ دار ٹھہرانے والا رویہ۔مودی حکومت یہ رویہ اس حقیقت کی بنا پر اپنانے کو مجبور ہوئی ہے کہ پلوامہ کے واقعہ کے بعد اسے پاکستان کواپنے وزیر اعظم کی لگائی بڑھک والے “Befitting”جواب دینے کی جرأت نہیں ہورہی۔

’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ والا ڈرامہ اب دہرایا نہیں جاسکتا۔توپوں کے ذریعے گولوں کے بجائے اب براہِ راست میزائل برسانے کی بات ہورہی ہے۔بھارت سے میزائل آئے تو پاکستان سے جواباََ پھول بھیجے ہی نہیں جاسکتے۔بھارت کی ٹی وی سکرینوں پر ’’منہ توڑ جواب‘‘ دینے کی دہائی مگر مچائی جارہی ہے ۔

کئی ’’دفاعی ماہرین‘‘ مستقل اصرار کررہے ہیں کہ ذرا ’’چیک‘‘ کرلیا جائے کہ پاکستان کی برداشت کی حد کیا ہے۔اس ’’مقام‘‘ تک پہنچنے کی کوشش ہوہی جائے جس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ناگزیر ’’تصور ہوتا ہے۔Nuclear Thresholdچھونے کی تمنا۔

مودی سرکار کو اگرچہ خوب علم ہے کہ پاکستان نے کوئی ’’دہلیز‘‘ طے نہیں کی ہے۔ وہ اس ’’دہلیز‘‘ کی حدود کو جانچنے کی ہمت نہیں رکھتی۔اسے بھارت کو چین سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے مساوی اقتصادی قوت بنانا ہے۔ پاکستان کے خلاف جارحانہ فوجی اقدامات کے ذریعے ’’دہلیز‘‘ کی حدود تلاش کرنا ایک خودکش سوچ ثابت ہوسکتی ہے۔

کوشش لہذا یہ ہورہی ہے کہ پلوامہ کے واقعہ کے بعد میڈیا کے ذریعے پھیلائے غضب کو ہر کشمیری کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ ہزاروں کشمیری طلبہ اور طالبات بھارت میں موجود تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں رہ رہے ہیں۔سیاحت سے جڑی ’’سروسز‘‘ والے کاروبار سے کشمیری کو اپنی جبلت یا DNAکی بدولت فائدہ اٹھانا آتا ہے۔

بھارت کے مرکزی شہروں کے کئی بازاروں میں خصوصی گوشے ہیں جہاں کشمیری دستکاری کی دُکانیں سیاحوں سے بھری ہوتی ہیں۔کوشش یہ ہورہی ہے کہ ان گوشوں کو گھیرے میں لے کر کشمیریوں کو وطن لوٹ جانے کو مجبور کردیا جائے۔جان بچانے کے خوف سے نازل ہوئی نقل مکانی۔ یہ نقل مکانی کشمیریوں کے دلوں میں بھارت سے کتنی ’’محبت‘‘ پیدا کرے گی۔اس کے بارے میں کوئی سوچنے کو تیار نہیں۔

ہندوانتہاپسندوں کو اپنی وحشت دکھانے کا ایک بھرپور موقع یقینا مل جائے گا۔یہ وحشت اپریل /مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں مودی کی جماعت کے بہت کام آئے گی۔ اس کے بعد مگر مودی مزید فسطائی بن جائے گا۔بات فقط کشمیریوں کو ’’ویری‘‘ قرار دینے تک محدود نہیں رہے گی۔ہندوانتہاپسندوں کا دل Moreمانگتا رہے گا۔

فی الوقت اگرچہ مودی کو پاکستان کا ’’صبر اور برداشت‘‘ چیک کرنے کے دبائو سے مکتی مل جائے گی۔میں ہرگز حیران نہیں ہوں گا اگر چند روز بعد مودی بذاتِ خود بھارت میں مقیم شہریوں کی ’’حفاظت‘‘ کو یقینی بنانے کی ’’فریاد‘‘ کرتا نظر آئے۔بھارت کے شہروں میں مقیم کشمیری طلبہ اور کاروباری افراد کے خلاف ہجوم کی نفرت کو پھیلانے پر توجہ دیتا میں ہرگز قطعیت سے یہ دعویٰ نہیں کررہا ہوں کہ آنے والے چند دنوں میں مودی سرکار پاکستان کو کسی نہ کسی جارحیت کا نشانہ نہیں بنائے گی۔

میں فقط مکاری سے پھیلائی اس فسطائی فضاکا ذکر کررہا ہوں جو اسے ممکنہ جارحیت کو مؤخر کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔پاکستان کے نیوکلیئر حوالوں سے ’’صبروبرداشت کی حد‘‘ کو چیک کرنے پر بھارتی ’’دفاعی ماہرین‘‘ کا ٹی وی سکرینوں پر اصرار اپنی جگہ موجود ہے۔

امریکی صدر کا مشیر برائے قومی سلامتی -جان بولٹن- اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے بھارت کو اپنے دفاع کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا ’’حق‘‘ بتاتے ہوئے واضح انداز میں مودی کو پاکستان کے خلاف جارحیت پر اُکساتا نظر آیا ہے۔عالمی تاریخ کا بدترین لطیفہ یہ بھی ہے کہ بھارت کو ’’اپنے دفاع‘‘کے لئے ’’کچھ بھی کرنے کا حق‘‘ دینے والے مشیر کا اپنا ملک ان دنوں طالبان کے ساتھ افغانستان سے ’’باعزت‘‘ واپسی کیلئے مذاکرات کررہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).