چیف صاحب، گاڑی کا ڈرائیور بہت اہم شخص ہے


راویانِ لطائف بیان لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مقدس پوپ ویٹی کن سٹی سے نیویارک تشریف لے گئے۔ ادھر ان کو ایک بڑی لمبی چوڑی سی سیاہ رنگ کی بیش قیمت گاڑی ریسیو کرنے آئی۔ سیاہ رنگ کا شاندار اور بیش قیمت سوٹ پہنے ڈرائیور نے نہایت عقیدت اور احترام سے مقدس پوپ کا سامان گاڑی میں رکھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ مقدس پوپ نے اسے مخاطب کر کے کہا ”میرے بچے، تمہیں پتہ ہے کہ مجھے ویٹی کن سٹی میں پروٹوکول کی وجہ سے گاڑی چلانے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ میری بہت خواہش ہے کہ میں گاڑی ڈرائیو کروں۔ میرے بچے کیا تم مجھے یہ بڑی سی شاندار گاڑی چلانے کا موقع دو گے؟ “

ڈرائیور نے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگا کہ ”سوری۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ میں ایسا کر سکتا ہوں“۔
مقدس پوپ نے اصرار کیا تو ڈرائیور اپنے انکار پر قائم نہ رہ سکا۔ کہنے لگا ”اوکے جیسا آپ حکم دیں مقدس باپ۔ میں مقدس پوپ کو کیسے انکار کر سکتا ہوں؟ “ یہ کہہ کر اس نے مقدس پوپ کو گاڑی کی چابیاں دے دیں اور خود پچھلی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔

مقدس پوپ کو ایک طویل مدت بعد گاڑی چلانے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے لطف اندوز ہونا شروع کر دیا۔ پہلے گاڑی کی رفتار پچاس کلومیٹر ہوئی، پھر سو، پھر ڈیڑھ سو اور پھر سوئی ڈھائی سو کا ہندسہ بھی عبور کر گئی۔

ڈرائیور کے حواس ساتھ چھوڑنے لگے۔ وہ گریہ و فریاد کرنے لگا ”اوہ میرے خدا وہ میری جاب چھین لیں گے، میرا لائسنس ضبط ہو جائے گا، میرا کیا ہو گا؟ ہم ایک سو بیس کی لمٹ والی سڑک پر ڈھائی سو کی رفتار سے جا رہے ہیں“۔

مقدس پوپ اس آہ وزاری سے بے نیاز ہو کر گاڑی کو تیز سے تیز تر کرتے گئے۔ آخر کار وہی ہوا جس سے ڈرائیور ڈر رہا تھا۔ پولیس کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا اور وہ تعاقب میں لگ گئی۔ مقدس پوپ نے گاڑی سڑک کے کنارے لگا دی۔

پولیس والے نے اپنی گاڑی پیچھے پارک کی، چالان بک ہاتھ میں تھامی اور طنطناتا ہوا گاڑی سے باہر نکل کر مقدس پوپ کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کے پاس پہنچا۔ اس نے کھڑکی سے اندر جھانکا اور پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ الٹے قدموں پھر کر واپس اپنی گاڑی میں گھس گیا۔

اس نے سیدھا پولیس چیف کا کال کی۔ ”چیف، میں نے آپ سے ایک اہم بات کرنی ہے۔ میں ہائی وے پر ڈیوٹی پر ہوں اور ایک پرابلم میں پھنس گیا ہوں“۔
چیف: کیسی پرابلم؟

پولیس والا: میں نے ایک گاڑی روکی ہے جو ایک سو بیس کی لمٹ والے ایریے میں ڈھائی سو سے بھی زیادہ رفتار سے دوڑ رہی تھی۔
چیف: اس کا جتنا زیادہ بھاری چالان ممکن ہے کر دو۔

پولیس والا: میرا خیال ہے کہ یہ کوئی عقلمندانہ اقدام نہیں ہو گا۔ گاڑی کا مسافر ایک بڑا آدمی ہے۔
چیف: کون ہے؟ نیویارک کا میئر ہے؟

پولیس والا: نہیں نہیں۔ اس سے بھی اہم۔
چیف: اہم؟ نیویارک کا گورنر ہے؟

پولیس والا: گورنر سے بھی بہت اہم شخص ہے۔
چیف: کیا صدر امریکہ اوور سپیڈنگ کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں؟

پولیس والا: ان سے بھی اہم ہستی ہے۔
چیف: صدرِ امریکہ سے زیادہ اہم کون ہو سکتا ہے؟

پولیس والا: یہ تو مجھے پتہ نہیں کہ کون ہیں مگر اتنا بتا سکتا ہوں کہ مقدس پوپ ان کی گاڑی کے ڈرائیور ہیں۔
تو صاحبو، بات کچھ یوں ہے کہ کہنے کو تو یہ ایک مشہور امریکی لطیفہ ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ بسا اوقات ہمیں ڈرائیور دیکھ کر ہی علم ہوتا ہے کہ بندہ کتنا اہم ہے۔ اور کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم اس کی گاڑی کا چالان نہیں ہوتا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar