فِکس اِٹ: اصلاح یا ایذا؟


بچپن سے اخبار میں خبریں پڑھتے اور تصویریں دیکھتے آئے ہیں کہ مخیر حضرات، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دیگر اعلی افسران و حکمران مستحقین میں ضروری اشیاء تقسیم کر رہے ہیں۔ مستحق عموما بیوہ خواتین ہی قرار پاتی ہیں۔ اس لیے سلائی مشین وصول کرتے ہوئے، اکثر ان کی ہی تصاویر نظر سے گزریں۔ عوام ایسی تصاویر سرسری طور پر دیکھتے ہیں یا نظر انداز کرتے ہیں۔ لیکن جب سے بھارتی فلموں کی شائق پاکستانی عوام نے فلم ”سوئی دھاگہ“ دیکھی ہے اور گزشتہ دنوں جس طرح سلائی مشین کی افادیت کا با تصویر تذکرہ سوشل میڈیا پر سنا ہے، سلائی مشین وصول کرتے ہوئے، عوام مستحق خاتون کی تصویر بہت غور سے دیکھتے ہیں اور خاتون کی شکل ذہن میں محفوظ کر لیتے ہیں کہ نہ جانے کب یہ مستحق خاتون سلائی مشین کی برکت سے بیرون ملک جائیداد، کمپنیز اور دیگر کاروبار کی مالک بن جائے۔

معاشرے میں بہت کم ایسے مخیر افراد ہوتے ہیں، جو ایک ہاتھ دیتے ہیں تو دوسرے کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اکثر ذاتی تشہیر کا کوئی نہ کوئی بہانہ تراش ہی لیتے ہیں اور اس تشہیر میں میڈیا کے افراد ہی ان کے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح کسی مظلوم کی داد رسی کر کے بھی شہرت حاصل کی جاتی ہے اور دیگر فلاحی کام کیے جاتے ہیں اور خاطر خواہ تشہیر کے بعد اپنے نام سے ٹرسٹ، فاؤنڈیشن یا این جی او بنا لی جاتی ہے۔ اور خاندان کا خاندان ایسے ٹرسٹ، فاؤنڈیشن اور این جی او کا کرتا دھرتا بن جاتا ہے۔ بہت کم ہی ایسے ٹرسٹ، فاؤنڈیشن یا این جی او ہوں گی، جن کے معاملات میں شفافیت ہو گی۔ اکثر جگہ گڑ بڑ گھوٹالا ہی پایا جاتا ہے۔

آج سے تین سال قبل کراچی کے ایک شہری جو خیر سے اب حکمراں جماعت کے ممبر قومی اسمبلی بھی ہیں، نے فکس اٹ کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اور کھلے مین ہول کے ارد گرد اس وقت کے حکمرانوں کی تصاویر بنائیں۔ عوام ایسی تصاویر دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے۔ میڈیا پر بھی خوب تشہیر ہوئی، جس کی بدولت موصوف آج ممبر قومی اسمبلی ہیں۔ احتجاجی سیاست سے سیاسی حریفوں اور حکمرانوں کو عوام کی نظر سے گرانا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور خاص طور پر اس وقت جب آپ کی پشت پر با اثر قوتیں ہوں۔

کراچی جیسے بڑے شہر میں ٹریفک کا پھنس جانا معمول کی بات ہے۔ اور عموما ٹریفک کی بد نظمی کی بڑی وجہ عوام خود ہوتے ہیں۔ کسی نے پارکنگ درست انداز میں نہیں کی ہوتی تو کوئی چلتی سڑک پر گاڑی روکے کھڑا ہوتا ہے۔ آج بھی جب گلبرگ کے سگنل سے آگے بڑھے تو دائیں طرف کی سڑک پر معمول سے زیادہ ٹریفک تھا اور گاڑیاں آڑی ترچھی ہو کر سڑک پر سے گزر رہی تھیں۔ سرسری طور پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ کالی ٹی شرٹس ( جن پر فکس اٹ تحریر تھا ) میں ملبوس خوش و خرم نوجوان موبائل سے تصویریں اتارنے میں مصروف ہیں اور دو چار نوجوان بیلچے اٹھائے، سڑک کے گڑھے بھرنے میں مصروف ہیں۔ جو گڑھے بھرے جا رہے تھے، اس کے ذمے دار وہ گل فروش ہیں جن کی دکانیں عین اس گڑھے کے سامنے ہیں اور جن کا کام صبح و شام سڑک پر پانی بہانا ہوتا ہے۔

چند ماہ قبل بھی قائد آباد کے پل سے قبل اتنا ٹریفک جام تھا کہ ٹریفک ملیر کے پل پر بھی پھنسا ہوا تھا۔ جب قائد آباد کے پل کے قریب پہنچے تو ٹریفک جام ہونے کی وجہ فکس اٹ کے نوجوان تھے جو سڑک کی ٹوٹی پھوٹی جگہ پر کرنے میں مصروف تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پڑھے لکھے شہرت کے حصول کے متلاشی ان نوجوانوں کو دیکھ کر شدید مایوسی ہوئی۔ ذاتی شہرت کے حصول کے لیے عوام کو تکلیف میں مبتلا کرنا، کہاں کا فلاحی کام ہے۔ اگر سڑکوں کی مرمت کا کام کرنا ہے تو ایسے وقت کیا جائے، جب ٹریفک کم سے کم ہو۔ یہ کیا کہ جب ٹریفک اپنے عروج پر ہو تو عین سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر ٹریفک کی روانی کو متاثر کیا جائے۔ فکس اٹ کی اس طرح کی فلاحی سرگرمیاں کراچی جیسے شہر میں بالکل مس فٹ ہیں۔ فکس اٹ کے بانی کا تعلق حکمراں جماعت تحریک انصاف سے ہے۔ ان کو خود سوچنا چاہیے کہ عوام کو فلاحی کام کی آڑ میں ایذا پہنچانا کہاں کا انصاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).