صحافی برادری اور وزیر اطلاعات آمنے سامنے


چار دانگ عالم میں انقلاب و تبدیلی بذریعہ میڈیا کے چرچے، گلوبل ویلج کے تصور اور اب جنگیں میڈیا کے ذریعے لڑی جانے کی باتیں زبان زد عام ہیں مگر ریاست کا چوتھا ستون اور صحافی برادری اپنے بقا کی فیصلہ کن جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ دوسری طرف صحافتی تنظیموں کی تقسیم در تقسیم دھڑابندی اور عہدہ و منصب کی خواہش سے صحافت جیسے مقدس پیشہ جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے۔ رہی سہی کسر تبدیلی سرکار نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے صحافی ورکروں کی جبری برطرفیوں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں پورا کردیا ہے۔

ان حکومتی اقدامات نے تنگ آمد بہ جنگ آمد کی کیفیت پیدا کر کے اس وقت صحافتی تنظیموں اور وفاقی وزیر اطلاعات کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے واک آؤٹ سے شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ مظاہروں احتجاجی دھرنوں اور حکومتی عہدیداروں کے پریس کانفرنس کے دوران مائیک اٹھانے کے بعد اب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے پریس کانفرنسز کا بائیکاٹ اور ملک کے بڑے شہروں میں ان کے پریس کلبوں میں داخلے کی پابندی تک آ پہنچا ہے۔ اور اب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے کوئٹہ اور کراچی کے بعد اسلام آباد و لاہور پریس کلب میں بھی داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

کوئٹہ پریس کلب کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے صحافیوں سے ناروا رویے، صحافیوں کی جبری برطرفیوں، تنخواہوں کی بندش اور تنخواہوں سے کٹوتیوں کا سلسلہ بدستور جاری رہنے کے باوجود میڈیا ہاؤسز کے خلاف کارروائی سے مسلسل گریزاں ہونے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے کوئٹہ پریس کلب میں داخلے پر پابندی عائد کی اور ان کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

کوئٹہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالخالق رند کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں مختلف میڈیا ہاؤسز کی جانب سے صحافیوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک جانب صحافیوں کا معاشی قتل کیا جارہا ہے۔ تو دوسری جانب ملازمتوں کا کوئی تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ جس پر پورے ملک میں صحافی اور صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں لیکن وفاقی حکومت نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

جبکہ ایسے میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا صحافیوں سے رویہ اور ان کے اقدامات افسوسناک ہیں۔ انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے صحافی تنظیموں کے قائدین کو ملاقات کا وقت دینے کے بعد ملاقات کے لئے نہ آنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر کے اس اقدام سے پورے ملک کے صحافیوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات میڈیا میں جاری اس بحران پر قابو پانے اور صحافیوں کی جبری برطرفیوں، تنخواہوں کی بندش اور تنخواہوں سے کٹوتیوں کا سلسلہ بند کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے جانبدارانہ کرادا ادا کررہے ہیں۔

موصوف کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود کوئی اقدام نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر صحافیوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا سلسلہ رکوانے میں کوئی کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔ عبد الخالق رند اس امر کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف جاری اقدامات کے خلاف ملک بھر میں صحافیوں کی تمام تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوچکی ہیں اور اس اتحاد کے ذریعے صحافیوں کے حقوق کا بھر تحفظ کیا جائے گا۔

کوئٹہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری نے ملک کی صحافتی تنظیموں کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات کی پریس کلبز میں داخلے پر پابندی کے فیصلے کو سراہتے ہوئے ان کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کی کوئٹہ پریس کلب میں بھی داخلے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اور اس دوران اگر وہ کوئٹہ کا دورہ کرتے ہیں تو سخت احتجاج کیا جائے گا۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر شکیل قرار نے اپنے ویڈیو پیغام میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر پابندی کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر اطلاعات کے صحافیوں کے لیڈروں سے ناروا سلوک کے خلاف ان پر پابندی کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ پریس کلب میں ہونے والی کسی تقریب میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔ شکیل قرار نے کہا کہ ملک بھر میں صحافیوں کو نکالنے پروفاقی حکومت بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ حکومت نے میڈیا کے نمائندوں کا موقف نہیں سنا۔ پریس کانفرنسزمیں مائیک اٹھانے سے شروع ہونے والا سلسلہ اب بائیکاٹ تک چلا گیا ہے۔ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے۔

اس سے قبل صدر کراچی یونین آف جرنلسٹ اور رکن جوائنٹ ورکرز ایکشن کمیٹی فہیم صدیقی کا بھی ویڈیو پیغام سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاؤسز سے جبری برطرفیوں، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اورکٹوتی جیسے اقدامات پر میڈیا مالکان کی حمایت کرنے اور خود بھی میڈیا ورکر دشمن اقدامات کرنے پر وفاقی حکومت کے خلاف فائنل راونڈ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق پہلے مرحلے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے کراچی پریس کلب میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اور شہر بھر میں ہونے والی تمام سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صدرکراچی یونین آف جرنلسٹ نے تمام صحافیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ کراچی میں وفاقی حکومت کی تمام سرکاری تقریبات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔

علاوہ ازیں چند روز قبل لاہور پریس کلب کے صدر ارشاد انصاری نے بھی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے صحافیوں کے وفد کو انتظار کرانے اور پھر ملاقات نہ کرنے پراحتجاج کیا تھا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے نارواسلوک پر انہوں نے فواد چوہدری کے لاہور پریس کلب میں داخلے پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے ملک بھر کے صحاٖفیوں سے اپیل کہ وہ وفاقی وزیر اطلاعات کا پریس کلبوں میں داخلہ بند کریں اور سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کریں۔

دوسری جانب بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی صحافیوں کی جبری برطرفیوں، تنخواہوں کی بندش، تنخواہوں سے کٹوتی اور جاب سیکورٹی نہ ہونے کے خلاف احتجاجی تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے علامتی واک آؤٹ کیا۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر ایوب ترین نے مذاکرات کے لیے آنے والے حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کی جبری برطرفیوں، تنخواہوں کی بندش، تنخواہوں سے کٹوتی کرنے والے میڈیا ہاؤسز کے سرکاری اشتہارات بند اور صحافیوں کی جاب سیکورٹی کویقینی بنایا جائے۔

حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی یقین دہانیوں کے باوجود تاحال کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں جس پر صحافیوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ آج کا احتجاج بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جس پر صوبے میں برسر اقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی بشریٰ رنداور دنیش کمار نے کہا کہ صحافیوں کو درپیش مشکلات سے متعلق بلوچستان اسمبلی میں قرارداد بھی منظور کی گئی اور اب بھی حکومت اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکومت کی سطح پر اقدامات کیے جائیں گے اور بی یو جے کے تحفظات سے وزیر اعلی جام کمال خان کو بھی آگاہ کیا جائے گاجبکہ اپوزیشن پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے اراکین اسمبلی میر اکبر مینگل اور احمد نواز بلوچ نے کہا کہ صحافی تنہا نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتیں ان کے ساتھ ہیں اگر حکومت کی جانب سے مسئلے کے حل کو نہ بنایا گیا تو پھر اپوزیشن جماعتیں بھی اس احتجاج میں صحافیوں کے ساتھ سڑکوں پر ہوں گی۔ ارکان اسمبلی کی مثبت یقین دہانی پر صحافیوں نے اپنا احتجاج ختم کرکے اسمبلی اجلاس کی میڈیا کوریج دوبارہ شروع کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).