ولی عہد کی آمد اور پاکستانیوں کے بھنگڑے


کافی دنوں بعد قوم کو خوش دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ قذافی اور شاہ فیصل کے کافی عرصے بعد پاکستان میں سعودی عرب کا جھکاؤ دیکھ کر ہر باشعور آدمی یہ سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں۔ لیکن اپن کو کیا؟ اپن کو تو پیسا چاہیے، چاہے کوئی بھی آکے دے جائے، ہم ہر ساز پہ نغمہ گانے کے ماہر ہیں۔ ویسے بھی سعودی عرب اور پاکستان ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ دونوں ممالک نے خوب امریکہ کی تابعداری کر کے دیکھ لیا ہے سوشل میڈیا پہ لوگوں نے اپنی ڈی پی ہٹا کر پلوامہ حملے کو بھول کر ولی عہد کی تصویر لگا کر مرحبا، مرحبا کے خوب نعرے لگائے ہیں لیکن کیا ان سب میں اس مڈل کلاس طبقے کی بات بھی کی جائے گی جو مڈل ایسٹ میں محنت مزدوری کرنے جاتے ہیں اور عرب ان کے ساتھ نوکروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔

ان کے مقابلے میں دوسرے ممالک کے لوگوں کو یہاں تک کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے لوگوں کو بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تقریباً ہر پاکستانی کو انڈیا کے لوگوں سے کم درجہ ملتا ہے بہت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ صرف پاکستانی ہی بے یارو مدد گار ہیں جو سمندر پار روزگار کے سلسلے میں جاتے ہیں۔ دوسرے سب ممالک کے وزیراعظم جب باہر کے ملکوں میں دورے کرتے ہیں ان کے عوام خوش ہوتے ہیں کہ آج ہمارے وزیراعظم کا دورہ ہے اور وہ ہمارے بارے میں بات کریں گے۔

یہاں تک کہ کسی کا وزیراعظم امریکہ بھی جائے تو اپنے غیر قانونی لوگوں کی بھی سپورٹ کی سفارش کرتا ہے لیکن ہم پاکستانی مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم تو صرف پیسے کی ہی بات کرتے ہیں کہ ہمیں امداد دو اور وہ امداد پھر چھوٹے سے امیر طبقے کے ہی کام آتی ہے آخر کب تک ہم قوم کے حقوق چھوڑ کر صرف پیسے کے پیچھے لگے رہیں گے اور یہ پیسا پاکستان میں آج تک کہیں خرچ ہوا نظر نہیں آیا نہ ہی تعلیم پہ اور نہ ہی قانون کو مضبوط کیا گیا جبکہ نہ صحت پہ لگایا گیا ہے۔

کہتے ہیں بات کرنے والے کو نہ دیکھو بلکہ بات کو دیکھو کہ کہنے والا کہ کیا رہا ہے۔ مانا کہ انڈیا ہمارا دشمن ہے لیکن ہماری ہر خامی ہمیں اپنے دشمنوں سے ہی ملے گئی کیونکہ خوشامدی لوگ تو ہر بات پہ واہ واہ کرتے ہیں۔ انڈیا کہتا ہے کہ نائن الیون کے نام پر پاکستان نے بوریاں بھر بھر کے ڈالر لئے تھے جبکہ یہ سچ بھی ہے تو پھر آخر وہ سب پیسا گیا کہاں جس کے بدلے ہم نے اپنے ہی بندے مارے۔ اب ہم نے دوسرا دروازہ ڈھونڈ لیا ہے اور اللہ کرے کہ اب ہمیں عقل آجائے اوریہ آخری بار ہو اور ہمیں پھر پیسا نہ لینا پڑے ورنہ پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ جہاں بڑے بڑے بکنے لگ جائیں، وہاں ڈگریاں بکتی ہیں، نوکریاں بکتی ہیں، قانون بکتا ہے تو اس ملک کی پھر باہر کوئی عزت نہیں ہوتی جیسے ہمارے پاسپورٹ دس بار چیک کیے جاتے ہیں کہ نقلی نہ ہوں کیونکہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان میں ہر چیز دو نمبر ہے کیونکہ خریدی جاتی ہے۔

تبدیلی سرکار کو اپنے ملک کے سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق دلوانے چاہئیں خالی ٹویٹ کرنے سے نہیں بلکہ پریکٹکل نظر آنے چاہئیں۔ آج کل تو آسان ہے کہ ایک ٹویٹ کردو اور سوشل میڈیا پہ بس واہ واہ ہو جائے۔ ہمارے لوگوں کے ساتھ عرب ممالک اور کفیل جانوروں والا سلوک کرتے ہیں۔ وہاں بادشاہت ہے کوئی جمہوریت تو ہے نہیں کہ انسانی حقوق دیے جائیں۔ پاکستانی لوگوں پہ ظلم ہوتا ہے جو لیبر طبقہ ہے ویسے بھی اگر ہم نے پیسا ہی لینا ہے تو ہمارے پاکستانیوں کے اپنے پیسے باہر کے بنکوں میں ٹھاٹھیں مار رہے ہیں تو ہم وہ کیوں نہیں واپس لا سکتے یا تو سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے تم چور تم چور کا نعرہ لگایا جاتا ہے یا پھر کوئی خاص قوتیں اپنے نقاب اترنے کے ڈر سے خاموش ہو جاتی ہیں اگر پاکستانیوں کا پیسا ہی واپس لایا جائے تو ہمیں مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ خیر دیکھتے ہیں کہ ولی عہد پاکستان کو سوئزر لینڈ بنانے کی کی کیا قیمت لے گا؟ ہوسکتا ہے پاکستان کے خوابوں کا شہزادہ ثابت ہو اور لوگوں کی قسمت بدل دے لیکن ہم نے بھنگڑے خوب ڈالے ہیں جیسے سعودیہ نے صدر ٹرمپ کے دور ہ سعودی عرب پہ ڈالے تھے۔ ہم نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).