کیا ٹرمپ قربان ہونے کے لئے تیار ہے؟


زمانہ قدیم میں دیوتاؤں کو خوش کرنے کے واسطے یا انہیں عذاب دینے کے ارادوں سے باز رکھنے کے لئے انسانی جانوں کی قربانیاں دی جاتی تھیں اور یہ روایت کم و بیش ہر تہذیب میں پائی جاتی تھی۔ پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ روایت چلتے چلتے ریاستی رویوں میں سرایت کرگئی۔ جتنا طاقتور دیوتا، اتنی بڑی اور خاص قربانی۔ جتنی طاقتور ریاست اس کا قربانی لینے کا مطالبہ اتنا ہی کرخت۔ کیا وجہ ہے کہ کچھ عالمی طاقتیں توہین آمیز، بے مقصد اور تھکا دینے والی پالیسیوں بالخصوص جنگی پالیسی کو جاری رکھتی ہیں۔

خارجی دباؤ، داخلی احتجاج، نقصانات کے بڑھتے اعداد و شمار اور خوفناک آمدہ حالات کی پیش گوئیاں تک عالمی طاقتوں کی ضد کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ کیا وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں شکست تسلیم کرنے سے اجتناب کرتی ہیں اور اگر انہیں پیچھے ہٹنا بھی پڑے تو دنیا جہان میں اس کا اتنا شور مچاتے ہیں کہ خاموش کرانے کے لئے دیگر ریاستوں اور تنظیموں کو آ کر منت سماجت کے ساتھ اپنی خدمات پیش کرنا پڑتی ہیں۔ جیسا کہ دیوتا کو منانے کے لئے قربانی کا اہتمام کرنا پڑتا تھا اسی طرح ریاست اس تبدیلی کی قیمت وصول کرنا چاہتی ہے اور اس قیمت کو ادا کرنے والی کوئی ایسی شخصیت ہو جو تاعمر ذلالت کا طوق گلے میں ڈالے پھرتا رہے تاوقتیکہ قدرت اسے مزید کوئی اور موقع نہیں دیتی۔ ویسٹ فیلین ڈھانچے کی روایات نے کچھ ایسی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی عالمی طاقت اپنی شکست تسلیم کرے، اگر ایسا کرے گی تو وجود سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ چنانچہ قربانی کے بدلے جواز ڈھونڈے جاتے ہیں اور تمام ملبہ ایک شخصیت کے گلے پڑ جاتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ میں برائی کی محور ریاستوں کے سامنے چرچل سینہ سپر تھا۔ باوجود تمام تر الزامات اور اعتراضات کے یہ ایک حقیقت ہے کہ چرچل نے اپنی سرزمین کا نا صرف کامیابی سے دفاع کیا بلکہ امریکہ جیسی مغرور اور روس جیسی اکھڑ ریاستوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کرکے اپنا پلڑا بھاری کیا لیکن ان مصروفیات میں 1942 میں سنگاپور جیسا اہم ترین بحری اڈہ جاپان کے ہاتھوں گنوا بیٹھا جس کی وجہ سے ایشیا بعید اور ہندوستان کی کالونی براہ راست جاپانی نرغے میں آگئیں۔

اگرچہ برطانیہ نے ہندوستان کی کالونی کو جاپانی ہاتھوں میں جانے سے بچا لیا لیکن خود کو برطانوی عوام کے غصے سے نہ بچا سکا۔ 1945 کے الیکشن میں محض چھتیس فیصد ووٹ حاصل کر پایا اور شکست کھا لی۔ کیونکہ یہ تصور غالب تھا کہ یہ چرچل ہی تھا جس کی وجہ سے برطانیہ کو اپنے استعماری وجود کا خاتمہ کرنا پڑا۔ اگرچہ اس کے بعد چرچل لوٹا اور لٹریچر میں نوبیل انعام کی عزت افزائی بھی پائی لیکن بابائے جدید برطانیہ کے لقب سے محروم رہا۔

چارلیس ڈیگال نے فرانس کی تشکیل نو اور عظمت رفتہ کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن الجزائر کی آزادی کے معاملے میں فرانسیسیوں نے اس کی تمام خدمات کو پس پشت ڈال کر ہدف تنقید بنا ڈالا۔ اگرچہ ڈیگال قاتلانہ حملوں سے بچتے ہوئے 1965 کا الیکشن جیت گیا لیکن اسے مدت صدارت پوری کیے بغیر ہی مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

ویت نام جنگ میں امریکی عوام کی مزاحمت امریکی تاریخ کا آزادی اظہار کے باب کی سنہری مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن جیسے ہی رچرڈ نکسن نے ریاست کی طاقت کو نظرانداز کرتے ہوئے ویت نام سے واپسی کا حکمنامہ جاری کیا، واٹرگیٹ جیسے غیراہم مسئلے نے اہمیت اختیار کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے نکسن بدنام ترین امریکی صدور میں صف اول پر آگیا۔

اگر ڈینگ ژیاؤ پنگ چین کے بنیادی نظریے سے انحراف کرتے ہوئے معاشی اصلاحات لاتا ہے تو ماؤ زے تنگ سے ذرا سا کم عظمت کا مینار بن جاتا ہے لیکن اگر ویسی ہی اصلاحات گورباچوف سوویت یونین میں لانا چاہتا ہے تو شدید ترین تنقید کا سامنا کرتے ہوئے یونین کا تمام شیرازہ ہی بکھیر لیتا ہے کیونکہ جنیوا معاہدے اور لیخ ویلنسیا سے معافی کی بنا پر واپسی کا حکم صادر کر بیٹھتا ہے۔

تازہ ترین مثال ہیلری کلنٹن کی بھی ہے جو اس وجہ سے صدارتی کرسی تک نہ پہنچ سکی کہ اس کے کیرئیر پر لیبیا کے معاملے پر عدم منصوبہ بندی اور غفلت کا دھبہ ہے۔

اب جب کہ ٹرمپ نے واضح طور پر شام اور افغانستان سے دستبردار ہونے کا ارادہ ظاہر کرلیا ہے اور اس سلسلے میں مذاکرات بھی کررہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ اس کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ ٹرمپ اگر اپنے فیصلے پر کاربند رہتا ہے تو نہیں معلوم قربانی کس انداز میں لی جاتی ہے۔ فی الحال تو یہ حالات ہیں کہ ایف بی آئی ٹرمپ کے روس کے ساتھ ممکنہ خفیہ تعلقات پر تحقیقات کررہی ہے اور امریکی ایوان نے میکسیکو دیوار کا مسئلہ بھی اٹھا رکھا ہے۔

لیکن اگر ٹرمپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئی اوبامہ کی طرح چالاکی کرے اور تاریخ دے کر مکر جائے تو شاید قربان ہونے سے بچ جائے۔ ویسے ٹرمپ شام کے مسئلے پر حفظ ماتقدم کے طور پر جیمز میٹس کی قربانی کر چکا ہے۔ بہرحال اگر ٹرمپ کو تاریخ سے کوئی سروکار نہیں، جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے، تو وہ یہ کر گزرے گا۔ کیونکہ ہوسکتا ہے ٹرمپ کو اسی مقصد کے لئے لایا گیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).