اکیسویں صدی کی تعلیم یافتہ بھیڑ بکریاں اور شرم حیا سکھانے والے


لو جی، تصویریں آ گئیں، دیکھ کے دل با غ باغ ہو گیا کہ یونی ورسٹی کے ارباب اختیار نے کچھ حیا سے عاری لڑکیوں کو با حیا بنانے کا ٹھیکہ اٹھایا ہے اور اپنے ایمان کو خدا کے فضل و کرم سے محفوظ کر لیا ہے

ہمار ے نزدیک وہ بہت زیادہ مبارک کے مستحق ہیں کہ معاشرے میں ایک نئئے ٹرینڈ کے بانی ہیں اور وہ کام جو ضیا الحق کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ صرف میڈیا کی عورتوں کے ساتھ محدود رہے وہ آج ان کے پیروکاروں نے کر دکھایا۔

ایک اور لحاظ سے بھی وہ قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے بچارے کم عقل، اور نا سمجھ ماں باپ کو گائیڈ کیا ہے جو غم روزگار میں الجھ کے اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنانے کا خواب دیکھ کر، یونی ورسٹی تو بھیج دیتے ہیں مگر ساتھی طالب علموں سے لے کر استادوں تک، کو اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں اسی لئے کسی بہت ہی ذہین اور فطین شخص نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ماں باپ کو آئینہ بھی دکھایا گیا اور تنبیہ بھی۔

تصویر یں بہت دل چسپ ہیں، بیک گراوئنڈ میں اقبال اور جناح ہیں اور ایک انتہائی صحت مند شخص انتائی دل جمعی سے لڑکیوں کے سروں پہ ہاتھ بھی رکھ رہا ہے اور ان کو چادریں اوڑھا رہا ہے۔

سٹیج پہ بیٹھے ہوئے لڑکوں کی کھلی ہوئی باچھیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ لڑکے بے چارے تنگ تھے، روز روز رنگوں کی برسات دیکھ کے، اپنے آپ پہ جبر کرتے رہتے تھے جو صحت کے لئے انتہائی مضر تھا۔ اب کائنات کے مالک سے تو کہہ نہیں سکتے کہ رنگ نہ بنائے اورلڑکی نام کی منحوس چیز پیدا ہی نہ کرے اور اپنی آنکھوں کو ہر وقت نیچے رکھنا بھی مناسب نہیں تو بہتر یہی ہے کہ ضیا الحق کی سوچ کو آگے بڑھایا جائے

ان تصویروں میں موجود لڑکیاں جو بیس بائیس سال کی دکھتی ہیں اور یونی ورسٹی تک پہنچ چکی ہیں شہروں کی پروردہ ہیں یہ اندرون سندھ کی وہ لڑکیاں نہیں جو سو کالڈ مہذب دنیا سے بہت دور، یا تو کاری کر دی جاتی ہیں یا قران سے بیاہ دی جاتی ہیں وہاں زبان کھولنے کا حکم نہیں ہوتا، یہ قبائلی علاقوں کی وہ لڑکیاں بھی نہیں جو ونی کر دی جاتی ہیں یا غیرت کے نام پہ قتل کر دی جاتی ہیں یہ دیہات کی وہ لڑکیاں بھی نہیں جنہیں نہایت چھوٹی عمر میں کسی وڈیرے یا سردار سے بیاہ دیا جاتا ہے، یہ ان علاقوں کی وہ لڑکیاں نہیں جہاں انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا ہے اور اپنے مالک کی غلامی کرنی پڑتی ہے۔

یہ شہر میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والی لڑکیاں ہیں جن پہ زندگی اتنی نا مہربان نہیں ہوتی جو اپنے والدین کی مکمل اعانت کے ساتھ اپنے خوابوں کا پیچھا کر تی ہیں۔ یہی لڑکیاں، ونی اور کاری ہونے والیوں کے لئے ایک سورج کی کرن ہوتی ہیں ایک ایسی سورج کی کرن جو ان کی اندھیری زندگی میں امید کی علامت ہوتی ہے، مالک کی غلامی سے آزادی کی علامت۔ اپنے قفس سے رہائی کی علامت۔

معلوم نہیں ان لڑکیوں نے اس سارے پاکھنڈ میں شامل ہونے کی حامی کیسے بھری، کیسے اپنے آپ کو اتنا ارزاں کیا کہ کوئی مرد سر عام آپ کو حیا دار بنانے کی کوشش کرے۔ کیا آپ اپنے آپ کو آج سے پہلے حیا دار نہیں سمجھتیں تھیں اور اس محفل میں یہ سرٹیفیکیٹ حاصل ہونے کے بعد آپ کو حیا عطا ہوئی۔

اسلام کے حکم آچکے، ہر کسی کا مقام بیان ہو چکا، جزا اور سزا کا فیصلہ کا دن بھی متعین ہو چکا، یہ بھی بتایا جا چکا کہ اس دن کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا، کوئی رشتہ ایک دوسرے کے پیچھے نہیں بھاگے گا ہر کسی کو اپنی فکر ہو گی

پھر یہ بھی بتایا جا چکا کہ اسلام میں کسی قسم کا جبر نہیں، تربیت کرنا اور سیدھے راستے پہ رہنے کی تلقین کرنا ہر ماں باپ کا فرض، مگر جب بچے جوان ہو جائیں، معاشرے کے ذمہ دار افراد بن جائیں تو ان کے سارے اعمال ان کی اپنی ذمہ داری بن جاتے ہیں

ایک پڑھی لکھی، اکیسویں صدی کی لڑکی، کیا حیا اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہے اور اس کو ضرورت کیا ہے اس سارے پاکھنڈ کی۔ ایک لڑکی نے کیا پہننا ہے، کیسے زندگی گزارنی ہے یہ اس کی ذاتیات ہے اور یا پھر اس کے والدیں کا معاملہ۔

مجھے تو ان لڑکیوں کی عقل پہ حیرانی ہے جو مردوں کے اس کھیل میں شریک ہو کے ان حضرات کو محظوظ ہونے کا موقع دے رہی ہیں۔ لڑکیاں نہ ہوئیں بھیڑ بکریاں ہو گئیں، یونی ورسٹی پہنچ کے معاشرے کے انتہای تعلیم یافتہ لوگوں میں شمار اور عزت نفس دو کوڑی کی۔ اگر چادر اوڑھنی ہے تو خود اوڑھو، اپنا حلیہ خود طے کرو، کیا تم مسلمان نہیں، کیا تمہیں احکامات نہیں پتہ، کیا تم باڑے میں ہانکی جانے والی جانور ہو جس کی زندگی، حلیہ اور قسمت مالک کے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر یہ یونی ورسٹی والے تو تمہارے مالک بھی نہیں۔ پھر تم نے ان کو اپنا تماشا کیوں لگانے دیا؟ کیوں اتنی ارزاں ہو گئیں تم؟ کیوں رول دیا تم نے اپنے آپ کو، ان سستی شہرت حاصل کرنے کے شوقینوں کے ہاتھوں۔ ان مذہب کے ٹھیکیداروں کے حوالے کیوں کیا خود کو؟

اگلی حیرانی ان صاحب پہ ہے جو بلا تکلف لڑکیوں کو چھو رہے ہیں، سر پہ ہاتھ پھیرا جا رہا ہے انتہائی قربت سے چادر پہنائی جا رہی ہے، کہیں کہیں جامے سے نکلا ہوا پیٹ نظر آ رہا ہے۔ کیا ان صاحب کو معلوم ہے کہ وہ کس غیر ذمہ داری کا شکار ہو کر یہ سب کر رہے ہیں، کیا سر عام کسی اور کی بیٹی کو چھونے کا حق انہیں حاصل ہے، کیا کسی کی عزت کرنے کے لئے اس کے سر پہ ہاتھ رکھنا ضروری ہے۔ جب اسلام کے اصولوں پہ عمل کروانا آپ کی ذمہ داری نہیں، تو آپ کس خوشی میں راجہ اندر بنے کھڑے ہیں؟

تصویر میں بیٹھے لڑکوں کے ایکسپریشن دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی مردانہ ایگو آج بہت بلند ہے، وہ لڑکیاں جو سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھیں آج کیسے منہ میں گھنگنیاں ڈالے کھڑی ہیں۔ بظاہر ان نوجوانوں کی آنکھوں میں ایک خواب سج رہا ہے جب وہ بھی عمر کے کسی حصے میں ایسی ہی لڑکیوں کو حیا سکھانے کے بہانے چھو رہے ہوں گے۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے۔

قائد کی تصویر بھی ہے، کچھ حیران ہیں کہ یہ آئیڈیا انہیں کیوں نہ آیا، اپنی بہن کو بھی چادر اوڑھاتے اور دوسروں کی بہنوں کو بھی۔ ایسے ہی اپنی بہن کو حیا نہ سکھائی اور ہر جگہ مردوں کے ہجوم میں بغیر چادر کے لئے پھرے۔

ہے نا قائد کا فیلیر

اقبال بھی سوچ رہے ہیں کہ عطیہ فیضی کے ساتھ اتنا وقت گزارا، اتنی خط و کتابت ہوئی، کاش ان کی عاقبت کی فکر بھی کی ہوتی ایک چادر اوڑھا کے۔

میں سوچ رہی ہوں، منٹو اور عصمت چغتائی ہوتے تو کیا کہتے، منٹو مسکراتے ہوئے کہتے ”کھول دو کے بازی گروں کو اوڑھا دو کی فن کاری آ گئی“
اور عصمت پکارتیں ”پاکھنڈ ہے سب، سالوں کا، چھونے کے نت نئے بہانے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).