دلیپ کمار کی اکڑ، کشور کی تساہلی اور دم توڑتی مدھوبالا


ویلنٹائن ڈے، جسے مذہب عشق کے پرہیزگار مومنوں نے انتہائی خشوع و خضوع سے اپنے اپنے مسلک کے مطابق منایا۔ اپنے چاہنے والوں /والیوں سے جنم جنمانتر تک ساتھ نبھانے اور سکھ دکھ میں ہر دم ساتھ دینے کے نہ جانے کتنے عہد و پیمان باندھے۔ عین اسی دن گوگل نے مدھو بالا کا ڈوڈل بنا کر اُس خوبصورت چہرے کو خراج عقیدت پیش کیا جس کی دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں کا کوئی جواب اس کے بعد نہ مل سکا۔ وہی مدھوبالا جس کے بارے میں شمی کپور نے کہا تھا کہ جب وہ سامنے ہوتیں تو میں ڈائیلاگ بھول جاتا کرتا تھا۔

ہاں وہی مدھوبالا جس کا یوم پیدائش 14 فروری کو پڑتا ہے۔ وہی دن جو عاشقوں کی عید کہلاتا ہے، محبتوں کا بسنت اور چاہتوں کا نوروز مانا جاتا ہے۔ وقت کی ستم ظریفی یہ کہ ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے جس دن دو پیار کرنے والے اپنی محبت کی تکمیل کی قسمیں کھاتے ہیں اور سات جنموں تک ساتھ رہنے کا وعدہ کرتے ہیں اسی دن جنمی اِس ہر دل عزیز اداکارہ کی محبت ہی ادھوری رہ گئی۔

نہ جانے کتنوں نے مدھوبالا جیسی محبوبہ پانے کے خواب دیکھے ہوں گے لیکن مدھوبالا حقیقی زندگی میں جس کی محبوبہ رہیں انہیں نے ان کی قدر نہ کی۔ کروڑوں دلوں پر راج کرنے والی مدھو بالا اپنی محبت حاصل کرنے کی جستجو میں ہی خالی ہاتھ اس دنیا سے سدھار گئیں۔

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

محض 36 سال کی عمر میں ہی اس ملکہ حسن نے زندگی کے تمام نشیب فراز دیکھ لئے تھے۔ بھارتی سنیما کی تاریخ کا جب جب ذکر ہوگا تب تب فلموں میں نام آئے گا مغل اعظم کا، اداکاروں میں قصہ چھڑے گا دلیپ کمار کا اور اداکاراؤں میں تذکرہ آئے گا مدھو بالا کا۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ یہ ممکن نہیں کہ دلیپ کمار اور مدھوبالا کا نام آئے اور اِن دونوں کی محبت اور اس محبت کے دردناک انجام کی بات نہ ہو۔

یوں تو دلیپ کمار نے کئی اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا لیکن ان کی جوڑی مدھوبالا کے ساتھ سب سے زیادہ مقبول رہی۔ شاید اس کامیابی کی وجہ اِن دونوں کی بے پناہ محبت رہی ہو۔ ہندی سنیما کی یہ شہرہ آفاق جوڑی فلمی پردے سے حقیقت میں بدل سکتی تھی، اس کا اختتام بھی حسین ہو سکتا تھا اور یہ رشتہ صدی کا سب سے خوبصورت رشتہ ثابت ہوسکتا تھا اگر اس رشتے کے درمیان انا اور ضد نہ آئی ہوتی۔

1951 میں ریلیز ہوئی فلم ترانہ کے سیٹ سے پروان چڑھی مدھو بالا اور دلیپ کمار کی محبت نے فلم نیا دور میں آکر کروٹ لی۔ اس فلم میں پہلے مدھوبالا کو بطور ہیروئن سائن کیا گیا تھا اور ان کے ہیرو دلیپ کمار تھے لیکن شروع سے ہی اس رشتے کے مخالف رہے مدھوبالا کے والد عطا اللہ فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ پر اڑ گئے، وہ نہیں چاہتے تھے کی مدھوبالا اور دلیپ کمار مزید نزدیک آئیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے مدھوبالا سے اس فلم کو چھوڑنے تک کو کہہ دیا۔

ادھر ڈائریکٹر چاہتا تھا کہ یہ فلم مدھوبالا ہی کریں۔ یہ معاملہ اتنا سنگین ہوا کی عدالت تک جا پہنچا۔ عدالت میں محض فلم کا قضیہ ہی نہیں اٹھا بلکہ مدھوبالا، ان کے والد عطا اللہ اور دلیپ کمار کے رشتے کی پیچیدگیاں بھی عام ہو گئیں۔ ایک مرد نے دوسرے مرد کو نیچا دکھانے کے لئے عورت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس مقدمہ میں دلیپ کمار نے ڈائریکٹر بی آر چوپڑا کے حق میں گواہی دی۔ اس ایک گواہی نے ہی سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس واقعہ نے ان دونوں کے رشتے میں ایسی دراڑ ڈال دی جو پھر کبھی نہ بھر سکی۔

اس مقدمے بازی کے بعد تو جیسے مدھو بالا کے والد عطا اللہ اور دلیپ کمار میں پوری طرح ٹھن گئی۔ دو پٹھان اپنی اپنی مردانہ انا کے آگے جھکنے کو تیار نہیں تھے۔ دلیپ کمار نے مدھو بالا کے سامنے شادی کا ارادہ اس شرط پر ظاہر کیا کہ وہ اپنے والد سے ہمیشہ کے لئے قطع تعلق کر لیں۔ وہیں مدھوبالا چاہتی تھیں کہ دلیپ بس ایک بار ان کے والد سے گلے لگ کر معافی مانگ لیں۔ دونوں میں سے کسی نے بھی دوسرے کی تجویز پر اتفاق نہیں کیا اور اپنی اپنی ضد پر ڈٹے رہے۔ حالانکہ دلیپ کمار نے بھری عدالت میں یہ قبول کیا کہ وہ مدھوبالا سے پیار کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن یہ دلیل ان کی انا کے آگے چھوٹی پڑ گئی۔

ایسا نہیں ہے کہ قسمت نے انہیں تلخیاں مٹانے کا کوئی موقع نہیں دیا۔ قسمت دیکھئے کہ مغل اعظم کی شوٹنگ پھر سے شروع ہوئی جس نے دلیپ کمار اور مدھوبالا کو ایک بار پھر آمنے سامنے کر دیا۔ یہ کرشمہ کہئے کہ اس فلم کے ڈائریکٹر کے آصف نے یوں تو اس فلم کو بنانے کا ارادہ 1944 میں ہی کر لیا تھا جس میں وہ اداکار چندر موہن اور اداکارہ نرگس کو لینے کا ارادہ کر چکے تھے لیکن اس کے فائنینسر شہزاد علی تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور چندر موہن کا دل کے دورے سے انتقال ہو گیا۔ نرگس نے بھی یہ فلم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سنجوگ نہیں تو اور کیا ہے کہ دلپ کمار اور مدھو بالا کی محبت کو آخر اس فلم سے ہی امر ہونا تھا۔

فلم بندی کے دوران تو دونوں کی محبت اپنے عروج پر تھی لیکن وسط تک آتے آتے حالات اس حد تک پہنچ گئے کہ دونوں کی بات چیت مکمل طور پر بند ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود اس فلم نے دونوں کے جذبات کے کچھ ایسے رنگ بکھیرے کہ یہ بھارتی سنیما کی تاریخ کی مثال بن گئی۔

اس فلم کی شوٹنگ کے دوران کئی ایسے سین تھے جس میں مدھوبالا اور دلپ کمار ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے لیکن ایک مرد کی ضد اور انا ہمیشہ ان کے درمیان حائل رہی۔ فلم میں پنکھ کے ساتھ فلمایا گیا مشہور زمانہ رومانی منظر اس عالم میں شوٹ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کو سلام کرنا بھی چھوڑ چکے تھے۔ ہر چند کہ اس منظر نے کروڑوں لوگوں کے جذبات بھڑکا دیے لیکن یہ قربت بھی دلپ کمار کی مردانہ انا کو پگھلا نہ سکی۔

مغل اعظم کا مشہور نغمہ ”جب پیار کیا تو ڈرنا کیا“ فلماتے ہوئے ڈائریکٹر کی یہی چاہت تھی کہ یہ گیت کچھ اس طرح منظرعام پر آئے کہ جوان نسل اسے سن کا پیار کے لئے بغاوت کر بیٹھے۔ ان کی یہ تمنا پوری بھی ہوئی اور یہ گیت ایک ایسی مثال بن گیا جسے آج بھی محبت کرنے والوں کوسنا کر حوصلہ دیا جاتا ہے لیکن اس نغمے نے اپنے تخت پر آن بان اور شان سے بیٹھے شہزادہ سلیم (دلیپ کمار) کے دل میں ذرہ برابر بھی جنبش پیدا نہیں کی۔ وہ اس فلم میں انار کلی کے لئے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر سے بغاوت کا حوصلہ تو رکھتے تھے لیکن حقیقی زندگی میں اپنی مردانہ انا کے ہاتھوں ہار گئے۔ کیسا اتفاق ہے کہ مغل اعظم کی کنیز بھی دو مردوں کی ضد کی چکی میں پس گئی اور حقیقی دنیا کی مدھوبالا بھی۔

پھر ایک ایسا سین بھی آیا جس میں سلیم انار کلی کو تھپڑ مارتا ہے۔ اس سین میں تو دلیپ کمار اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بھرے مجمع میں مدھوبالا کو حقیقت میں زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا۔ فلم کے سیٹ پر موجود سب کے سب دنگ رہ گئے اور مدھوبالہ جو اپنی محبت کو پھر سے تنکا تنکا جوڑکر گھر بنانے کی کوششیں کر رہی تھیں ان کے ارمان کرچے کرچے ہو کر بکھر گئے۔

محبت کے آغاز میں ایک وقت وہ تھا جب دلیپ کمار کا مدھو بالا کے بغیر ایک دن بھی گزارنا تقریباً ناممکن ہوا کرتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ وہ اپنی فلم کی شوٹنگ چھوڑ چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتے جہاں مدھوبالا کی شوٹنگ چل رہی ہوتی تھی۔

انہوں نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ مدھوبالا کی جانب کھنچتے چلے گئے، دونوں حوالوں سے، بطور فنکارہ بھی اور بطور شخصیت بھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کچھ ایسی خوبیاں رکھتی تھیں جو وہ اس زمانے اور عمر میں ایک خاتون میں دیکھنا چاہتے تھے۔

اس فلم کی شوٹنگ کے دوران مدھو بالا کئی بار بیمار پڑیں اور 1950 میں ہی یہ بات سامنے آگئی کہ انہیں دل کی سنگین بیماری ہے اس کے باوجود وہ فلموں میں کام کرتی رہیں۔ مغل اعظم کی شوٹنگ کے دوران کئی بار ان کی طبعیت بگڑی، کئی کلو وزنی بیڑیاں پہن کر ان کے ہاتھوں میں سوجن آجاتی تھی لیکن اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار کو کوئی فرق نہیں پڑا اس لئے کہ وہ محبت اور مردانہ انانیت میں انا کو چن بیٹھے تھے۔

آخر کار فلم مکمل ہوئی لیکن ان دونوں کے درمیان کھائی کم نہ ہوسکی۔ مغل اعظم کے بعد دونوں نے کسی فلم میں ساتھ کام نہیں کیا۔ دل و جان سے دلپ کمار کی چاہت کی اسیر مدھوبالا ان کی بے رخی سے اس حد تک حواس باختہ ہو گئیں کہ ایک رات کے پچھلے پہر کشور کمار کے دروازے پر پہنچ گئیں اور ان سے شادی کو پوچھ بیٹھی۔ کشور جو پہلے سے ہی اس کے منتظر تھے بھلا کیوں انکار کرتے اور یوں 1960 میں دونوں کی شادی ہوگئی۔ یہ کشور کمار کی مخلص محبت ہی تھی کہ یہ جانتے ہوئے کہ وہ دل کے ایک سنگین مرض میں مبتلا ہیں انہوں نے مدھوبالا سے شادی کی۔

Madhubala

کشور مدھوبالا کے لئے مسلمان ہوئے اور ان کا نام عبدالسلام رکھا گیا۔ سچی محبت کی ماری عورت شادی تو کر بیٹھی لیکن دل سے کشور کمار کی نہ ہو سکی۔ کہا جاتا ہے کہ مدھو بالا نے یہ شادی محض دلیپ کمار اور عطا اللہ سے انتقام لینے کے لئے کی تھی۔ بیماری کی وجہ سے ان کی طبیت میں بے حد چڑ چڑا پن آگیا تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر کشور کمار سے جھگڑا کرتی تھیں۔ کشور بھی ان کی لمبی بیماری اور اپنے لئے ان کے دل میں محبت تلاش کرتے کرتے تھک گئے تھے۔

یوں تو ان کی ازدواجی زندگی 9 سال کی رہی لیکن اس میں ایک طویل عرصہ بیماری میں گزرا۔ اس دوران کشور کمار مدھوبالا کو لندن لے گئے۔ وہاں پتہ چلا کہ وہ بس ایک دو برس کی مہمان ہیں۔ مدھوبالا کی بہن بتاتی ہیں کہ کشور لندن سے یہ سن کر جب بھارت آئے تو مدھو بالا کو ان کے گھر چھوڑ گئے جہاں وہ ان سے مہینوں مہینوں تک ملاقات کے لئے نہیں آتے تھے۔ مدھوبالا عجیب قسمت لے کر آئی تھیں۔ ایک طرف انہوں نے وہ شہرت اور بلندی حاصل کی جو کسی اور اداکارہ کے حصہ میں نہیں آئی لیکن محبت کے اعتبار سے وہ بد نصیب ہی رہیں کیونکہ جس وقت وہ اپنی اخری سانسیں گن رہی تھیں اس دم نہ تو دلیپ کمار ان کے ساتھ تھے اور ہی کشور کمار۔ 23 فروری 1969 کو مدھوبالا اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ پروین شاکر کے اس شعر میں شاید انہیں کا نوحہ ہے :

جلا لیا شجر جاں کہ سبز بخت نہ تھا
کسی بھی رت میں ہرا ہو یہ وہ درخت نہ تھا

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

صائمہ خان دہلی سے ہیں،کئی نشریاتی اداروں میں بطور صحافی کام کر چکی ہیں، فی الحال بھارت کے قومی ٹی وی چینل ڈی ڈی نیوز کی اینکر پرسن ہیں

saima-skhan has 12 posts and counting.See all posts by saima-skhan