سعودی ولی عہد تحریک انصاف میں جان ڈال گئے


سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ، پاکستان تحریک انصاف کے دوستوں کے بجھے سے چہروں پر زندگی دوڑا گیا۔ عرصہ تو محض چھ ماہ کا ہی گزرا تھا مگر واقعات و حالات کے تابڑ توڑ حملوں نے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ اور کارکنوں کو خاموش سا کروا دیا تھا۔ کمزور سا دفاع ہوتا یا پھر سیدھی گالیاں، جو دلیل نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اس صورتحال میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، پی ٹی آئی کو طاقت کا انجکشن لگا گئے، ان میں جان دوڑی اور سوشل میڈیا پر اب وہ گرج برس رہے ہیں۔ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے لیڈر اور انتخاب پر خوش ہوں داد دیں، نعرے لگائیں لیکن یاد رہے کہ ان کے لئے یہ وقتی ریلیف ہے، چند دن گزر جائیں گے پھر زمین کی حقیقتیں سامنے ہوں گی۔ ان دو سیاسی جماعتوں کی گہما گہمی سے باہر نکل کر دیکھیں تو پاکستان کے لئے یہ دورہ بہت اہم تھا۔

بھارتی نیوز چینلز پر نہ جانے کیوں پابندی ہے، عجیب بچپنے کی سوچ ہے کہ بھارتی نیوز چینلز ہمیں غدار بنا سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ انٹرنیٹ پر بھارتی نیوز چینلز دیکھیں تو جان جائیں گے کہ وہاں پاکستان کے خلاف کس طرح ماحول بن چکا ہے، ان کا بس چلتا تو جنگ کب کی شروع ہو چکی ہوتی۔ ان پر سعودی شہزادے کا یہ دورہ بجلی گرا گیا ہے، وہاں ماتم ہو رہا ہے کہ کیسے سعودی عرب پاکستان کی کمر تھپک رہا ہے، وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، شہزادے نے کہا ہے کہ وہ خود سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر ہے، شہزادے نے پاکستانی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا وغیرہ۔ کشمیر پر ہوئے تازہ حملے کے بعد بھارتی میڈیا پر پاکستان کو لے کر اتنی بے مغز بکواس ہوئی تھی کہ سعودی شہزادے کے دورے پر ان کا یہ واویلا سن کر مجھے تو بڑا مزا آیا۔

وہاں چین سے بھی گلے شکوے اور رونا دھونا جای ہے۔ امریکہ اور ایران البتہ انہیں اپنے دوست دکھائی دے رہے ہیں مگر ظاہر ہے یہ سفارتی سطح تک ہی ہے۔

اپنے ہاں چند دوست شہزادے کے ماضی سے جمال خشوگی کی ایک لاش نکال کر اسے گندہ ثابت کرنے کی بے معنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بھائی جان، سعودی عرب ایک سلطنت ہے۔ بادشاہت کا نظام قائم کس طرح ہوتا ہے، جب قائم ہو جائے تو پھر چلتا کیسے ہے کیا آپ جانتے نہیں، کس سے آزادی رائے کی سہولت مانگی جا رہی ہے، کس کو انسانی جان کے احترام کی نصیحت ہے، سعودی ولی عہد سے۔ آپ کی معصومیت کو سلام ہے۔ کمال یہ بھی ہے کہ یمن میں اس شہزادے کے فیصلوں کی قیمت جس طرح معصوم، بچوں، عورتوں سمیت پوری قوم نے چکائی اور چکا رہی ہے وہ کسی کو نظر نہ پہلے آئی اور نہ اب کہیں اس کا تذکرہ ہے، جمال خشوگی بھی یمن کے کسی اخبار میں لکھتا تو کیا ہمیں یاد ہوتا؟ یہ واشنگٹن پوسٹ کے لئے لکھتا تھا تو ہمیں بھی یکایک اس کے انسان ہونے کا احساس ہو گیا اور ہم اس کا شور بھی سن رہے ہیں۔

ریاستیں جمہوری ہوں یا غیر جمہوری، اگر کسی کو اپنے مفاد کے لئے حقیقی خطرہ سمجھیں گی اور مار سکیں گی تو مار دیں گی۔ کیا یہ خبر ہے؟

شہزادہ محمد بن سلمان نے کس طرح اقتدار میں راستے بنائے، کس طرح اپنے چچا کو سابق ولی عہد میں تبدیل کر کے سعودی بادشاہت میں جوہری تبدیلی کر دی، کس طرح خاندان میں اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگایا، کس سے کن شرائط پر کیا ڈیل کی یہ ایک طالب علم کے طور پر میری دلچسپی کا باعث ضرور ہے مگر بطور پاکستانی مجھے اس سے کچھ غرض نہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان ایک غیر معمولی شخص ہے، اس نے اپنے ملک میں دہائیوں سے جاری جمود کو توڑا ہے۔ قبائلی نظام میں یہ آسان نہیں، اور جب قبائلی روایات مذہب میں گندھی ہوں تو ایسا کرنا موت کو سیدھی دعوت دینا ہے۔ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت، سینیما گھروں کی اجازت، سیاحت کے فروغ کے لئے نئے شہروں میں غیر معمولی آزادیاں دینے کے منصوبے، میوزک کنسرٹس کی اجازت، سعودی معاشرے کے لئے بہت بڑے جھٹکے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سعودی مولویوں نے دور بیٹھ کر ہمارے نارمل معاشرے کو کس طرح عدم برداشت کی جانب دھکیلا، مدرسوں اور ان کے نصاب میں کیا کچھ شامل کیا، اور اس تباہی نے کس طرح ہمیں مسخ کیا۔ اب سوچیں کہ ان مولویوں کی درمیان، ان کے اپنے ملک میں، ان کی حکومت میں ایک آدمی ان کے بنائے جمے جمائے اصولوں کو بدلنے چل پڑتا ہے۔ ایسے قدم وہ شخص اٹھاتا ہے جو مرنے اور مارنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہو۔ اور یہ بات وہ کھل کر کہتا بھی ہے۔

ہم جائز طور پر خوشی منا رہیں نہ، کہ ولی عہد نے دو ہزار ایک سو پاکستانی قیدیوں کو ایک حکم جاری کر کے رہا کر دیا، یہ شہزادہ تھا تو ہو گیا، برطانیہ کی وزیر اعظم یا امریکہ کے صدر کا باپ بھی اس طرح کا حکم جاری کرنے کا نہیں سوچ سکتا، حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی نہیں، اگر کرے گا تو واپسی سے قبل ہی اسے پاگل قرار دے کر معزولی کی تیاری ہو چکی ہو گی، اس لئے کہ وہاں جمہوریت ہے، قانون کی حکمرانی ہے، بادشاہت نہیں۔

قیدیوں سے متعلق درخواست اور اس پر حکم کا فیصلہ یقیناً پہلے سے طے ہو گا ورنہ وزیراعظم سب کے سامنے اس طرح کی درخواست کرتے ہی نہ مگر بادشاہت تھی تو درخواست منظور بھی ہو گئی عمل بھی ہو گیا اب یہاں بادشاہت اچھی ہے مگر اسے انسانی حقوق کا احترام بھی کرنا چاہیے یعنی

سراپا رہنِ عشق، ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

دوسری جانب ایران کا پاکستان کے حوالے سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام یا تشویش، امریکہ کا بھارت کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان پر الزام تراشیاں یقیناً شدید تشویش کا باعث تو ہیں مگر اس میں نیا کیا ہے۔

کارگل ابھی کل کی بات ہے پھر بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، پٹھان کوٹ پر حملہ، میں دہشت گردی کے ان واقعات کے حق میں ہر گز نہیں ہوں محض توجہ دلا رہا ہوں کہ پہلے بھی بڑے واقعات ہوئے، امریکہ خود ہمیں دھمکیاں دے دے کر آخر خود ہی جانے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی جنگی ماحول ڈھونڈ رہا ہے، اس کے پاس انتخابات میں اپنے عوام کے سامنے لے جانے کے لئے کچھ نہیں۔ مگر اس کے ساتھ گیم الٹا پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

اب وہ کچھ نہیں کرتا تو الیکشن میں مارا جائے گا، کرتا ہے تو کیا کرے زیادہ سے زیادہ بات وہاں لے جائے گا جہاں واجپائی، کارگل کے بعد لے گئے تھے، اس سے اس کے جنونی ووٹرز کو اطمینان نہیں ہو گا۔ جنگ کرنا آپشن نہیں ہے، پھر کیا ہو سکتا ہے، ایک اور فرضی سٹریٹجک سٹرائیک کی کہانی جیسے پہلے سنی تھی اب بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی بھارتی ٹی وی سکرین پر۔ اس کو کانگرس سمیت بھارتی اپوزیشن چھپنے نہیں دے گی۔ مطلب بھارتی الیکشن ابھی سے گرما گرم ہو گئے ہیں۔

ہمسایوں سے زیادہ مجھے اپنے ملک کے لئے امن کی ضرورت ہے جو مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں ہر طرح کی دہشت گردی کی مخالفت کروں۔ میں یاد رکھوں اور یاد دلاتا رہوں کہ ریاست کی حفاظت کی ذمہ داری کے لئے ایک فوج ہے اور اس کی موجودگی میں کوئی لشکر، کوئی جماعت یہ حق نہیں رکھتی کہ دفاع کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا دعویٰ کرے یا آگے بڑھ کے دوسری ریاست میں کسی طرح کی مداخلت کرے۔

رہا یہ نکتہ نظر کہ اب ہم مڈل ایسٹ میں ایران کے خلاف سعودی لڑائی میں شامل ہو چکے ہیں تو سکون رکھیں، تشویش کی کوئی بات نہیں، ہمیں پیسے اور اسلحے سے مطلب ہے، دینے والا جو سننا چاہے سن لے۔ کرنا ہم نے وہی ہے جو ہم چاہیں گے۔ اعداد و شمار کے اختلاف کو ایک طرف رکھیں تو بھی کم از کم بیس ارب ڈالر ہم نے امریکہ سے محض القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں وصول کیا ہے اور اس جنگ میں ہم امریکہ کے ساتھی، دوست تھے کہ دشمن اسے آج تک خبر نہیں۔

ایسا ہونا چاہیے تھا یا نہیں یہ موضوع بحث نہیں مگر ہوا تو یہ ہی۔ سعودیہ عرب جو چاہے مطالبے کرتا رہے، خواہش کرتا رہے اس پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔ دوسری بات یہ کہ سعودیہ پاکستان کی فوج کو اپنے دفاع کا غیر معمولی حصہ سمجھتا ہے اس کی ہماری فوج پر بڑی سرمایہ کاری اور امیدیں ہیں، نیوکلیئر پروگرام میں ان کی بڑی مدد شامل تھی اور ہے، مگر ہم ایران کے خلاف کسی باقاعدہ جنگ کا حصہ، سعودی عرب کے کہنے یا خواہش پر بن جائیں ایسا سوچنا بھی حماقت ہے۔

سعودیہ عرب کے دفاع اور حفاظت کی بات بالکل دوسری ہے اور سعودی عرب کے لئے یہ بہت ہے اور وہ اتنے پر راضی بھی ہے۔ آخری اور اصل بات یہ کہ تحریک انصاف کے دوستوں کو یاد دلا دوں کہ آپ کی طاقت سعودی حکمران شاہی خاندان میں نہیں، ان کا مستقل تعلق، ریاست اور مستقل رہنے والے اداروں سے ہے۔ شاہی خاندان زیادہ سے زیادہ جیل سے چھڑوا دے گا اور اس کی بھی کوئی حتمی گارنٹی نہیں۔ بہتر ہے کہ اپنی طاقت کی بنیاد کو یاد رکھیں وہ اس زمین اور یہاں رہنے والوں میں ہے، اسی کو مضبوط بنائیں۔ خود کابینہ کے وزیروں کا اجلاس بلا کر خود ہی ان کو سو نمبر دینے سے سچائیاں نہیں چھپا کرتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).