ساہیوال واقعے کی دو متوازی تحقیقات: کیا حتمی حیثیت جے آئی ٹی کی ہو گی؟


سانحہ ساہیوال

ہلاک ہونے والے مہر خلیل کے بھائی مہر جلیل کو جے آئی ٹی کی طرف سے کی جانے والی تفتیش پر اعتبار نہیں ہے

ساہیوال میں انسدادِ دہشت گردی کے محکمہ کے اہلکاروں کے ہاتھوں گزشتہ ماہ ایک خاتون اور بچی سمیت چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ کارروائی میں ملوث اہلکاروں کی انسدادِ دہشت گردی کے مقدمہ کے تحت گرفتاری کے بعد تحقیقات جاری ہیں۔

انٹیلی جنس نمائندوں اور پولیس پر مشتمل پانچ رکنی اس ٹیم کی تحقیقات گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہیں اور حتمی رپورٹ تاحال سامنے نہیں آئی۔

مرنے والوں کے لواحقین نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے عدالتی انکوائری کا حکم دیا تھا اور ساہیوال کی ایک مجسٹریٹ عدالت کو اس کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

سانحہ ساہیوال میں ہلاک ہونے والے مہر خلیل کے بھائی مہر جلیل نے پیر کے روز ساہیوال میں عدالتی انکوائری کے سامنے پیش ہونا تھا تاہم وہ طبیعت کی خرابی کے باعث پیش نہیں ہو سکے۔

وہ رواں ماہ کی 22 تاریح کو پیش ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مجسٹریٹ کو انکوائری کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ تاہم مرنے والوں کے لواحقین اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر وہ جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ سے مطمئن نہ ہوئے تو وہ جوڈیشل کمیشن کے مطالبے پر قائم ہیں۔

تاہم سوال یہ ہے کہ متوازی ہونے والی ان مختلف تحقیقات کا مقدمہ پر کیا اثر پڑے گا؟ کس کی تحقیقات مانی جائیں گی؟ کیا کمیشن یا عدالتی انکوائری جے آئی ٹی کی تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟

قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے جے آئی ٹی کی تحقیقات قابلِ قبول ہوں گی۔ عدالتی کمیشن یا انکوائری کی حیثیت محض ‘فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ’ کی ہو سکتی ہے۔

جے آئی ٹی اور عدالتی تحقیقات میں کیا فرق ہے؟

سانحہ ساہیوال کی عدالتی تحقیقات ساہیوال کی مقامی مجسٹریٹ عدالت کی سطح کے ایک جج کریں گے۔ متاثرہ خاندانوں کے نمائندہ وکیل بیرسٹر احتشام امیرالدین نے بی بی سی کو بتایا کہ اس حوالے سے مجسٹریٹ نے متعلقہ افراد کو سمن بھیجنے شروع کر دیے ہیں۔

تاہم فوجداری معاملات کے تجربہ کار وکیل اعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ایسی عدالتی انکوائری کی رپورٹیں ٹرائل یعنی مقدمہ میں استعمال نہیں ہوتیں۔

‘مقدمہ کے اندراج کے نتیجہ میں قانونی طور پر جو تحقیقات پولیس نے کرنی ہیں، چاہے وہ ایک افسر کرے یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے، وہ کسی بھی دوسری چیز کے قطع نظر ہونی ہی ہونی ہیں۔’

‘عدالتی انکوائریز یا کمیشنوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ حقائق کی جانچ پڑتال کر کے رپورٹ کی شکل میں سامنے لائیں۔’

اعٰظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی عدالتی تحقیقات حکومت اور عوام کے استعمال کے لیے ہوتی ہیں تا کہ حقائق ان کے سامنے آ جائیں، ‘انہیں عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ یہ ملزمان کے قانونی حقائق کا تعین نہیں کرتیں۔’

سانحہ ساہیوال

محکمۂ داخلہ پنجاب کے ایک سینیئر افسر کے مطابق ‘سی ٹی ڈی پنجاب کی یہ کارروائی ناقص منصوبہ بندی کے تحت کی گئی’

کیا ماضی میں ایسا ہو چکا ہے؟

اس نقطے کو اعٰظم نذیر تارڑ ماضی کے بڑے مقدمات کی مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔ اس خطے میں رائج اصولِ قوانین کی تاریخ میں دیکھا جائے تو انڈیا کی تب کی وزیرِ اعظم ‘اندرا گاندھی کے قتل کی تحقیقات میں جو عدالتی انکوائری ہوئی تھی وہ ان کے ٹرائل میں استعمال نہیں ہوئی۔’

اسی طرح پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو کے خلاف مبینہ قتل کے الزامات پر جو عدالتی انکوائری ہوئی وہ بھی ریکارڈ کا حصہ نہ بنی۔

پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمہ میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اقوامِ متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ کو استعمال کیا، مگر ہائی کورٹ نے اسے معطل کر دیا۔

اس کی حالیہ مثال لاہور کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی لی جا سکتی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے حوالے سے عدالتی تحقیقات یعنی ‘نجفی رپورٹ کے حوالے سے بھی فُل بنچ نے کہہ دیا کہ یہ ٹرائل میں استعمال نہیں ہو گی۔’

اعٰظم نذیر تارڑ کے مطابق کمیشن یا عدالتی انکوائری ایک آزادانہ عمل ہے جس کا ٹرائل یعنی عدالت میں مقدمہ کی کارروائی سے تعلق نہیں ہوتا۔ ‘ایف آئی آر کے نتیجے میں قدرتی عمل کے طور پر جو ہونا ہے وہ تفتیش ہے اور وہ جے آئی ٹی نے کرنی ہے۔’

عدالتی کارروائی ٹرائل کا حصہ کیوں نہیں بنتی؟

قانونی ماہر اعظم نذیر تارڑ کے مطابق اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اس نوعیت کی رپورٹوں کو عدالتی کارروائی کا حصہ اس لیے نہیں بنایا جاتا کیونکہ ‘ایگزیکٹو اتھارٹی ہمارے قانونی نظام میں کہیں جگہ نہیں رکھتی۔’

دوسرا یہ کہ ‘اس کی وجہ سے ملزم کے قانونی حقوق اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ کئی دفعہ اس کو انکوائری میں شامل نہیں کیا جاتا’ اور تیسرا یہ کہ ‘یہ تحقیقات میں مداخلت کے مترادف ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں یہی رائج ہے کہ عدالتی تحقیقات ایک فیکٹ فائنڈنگ یعنی حقائق کی جانچ پڑتال کی حیثیت میں رہتی ہے جو انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے ہوتی ہے، یعنی مستقبل میں ایسے حادثات کو کیسے روکنا ہے اور اس کے لیے کیا حکومتی لائحہ عمل بن سکتا ہے۔

‘ملزمان کے جرم کا فیصلہ تفتیش اور عدالت میں ہو گا’

تاہم اعٰظم نذیر تارڑ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ عدالتی انکوائری کے نتیجے میں ‘جو سینیئر یا جونیئر اہلکار ملوث پائے گئے ان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہو سکتی ہے یا متاثرین کے لیے ہرجانہ وغیرہ کا تعین کیا جا سکتا ہے۔’

‘لیکن اس انکوائری کے نتیجہ میں ملزمان کے گناہ کا فیصلہ نہیں ہو گا، وہ تفتیش اور عدالت میں ہو گا۔’

سانحہ ساہیوال میں مرنے والوں کے وکیل بیرسٹر احتشام امیرالدین کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘تمام تحقیقات میں حقائق ہی سامنے آئیں گے۔’

ان کا ماننا ہے کہ جے آئی ٹی کے متوازی عدالتی انکوائری کا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو حقائق جے آئی ٹی سے چھوٹ گئے ہیں وہ عدالتی انکوائری میں سامنے آ سکتے ہیں۔

‘عدالت کا جوڈیشل انکوائری کا حکم دینے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اگر جے آئی ٹی کوئی نقطہ چھوڑ دے تو وہ اس انکوائری کے ذریعے ریکارڈ پر آ جائے۔’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مدعی مقدمہ کا مطالبہ یہی ہے کہ ایک عدالتی کمیشن بنے اور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی سطح پر ایک حاضر سروس جج اس کی انکوائری کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp