محمد بن سلمان کا دورہِ انڈیا: کیا سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بنانے کے لیے دہلی اپنے پرانے دوستوں کو ترک کر دے گا؟


مودی اور محمد بن سلمان

جب سے نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں، انڈیا کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات واضح طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔

گذشتہ پانچ برسوں میں انڈیا اور سعودی عرب قریب آئے ہیں اور سنہ 2016 میں نریندرا مودی کے ریاض کے دورے پر ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔

ولی عہد محمد بن سلمان بھی 19 اور 20 فروری کو انڈیا کے دو روزہ دورے پر پہنچ رہے ہیں جس سے تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔

انڈیا کی خام تیل کی درآمدات کا ایک چوتھائی حصہ سعودی عرب سے آتا ہے اور سنہ 2018-2019 میں انڈیا نے اس پر 87 ارب ڈالر خرچ کیے۔

امریکہ، چین اور متحدہ عرب امارات کے بعد سعودی عرب انڈیا کا چوتھا بڑا تجارتی حلیف ہے۔ تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رشتہ قربت کے باوجود دُوریوں کا شکار ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا کا کہنا ہے کہ باہمی تعلقات میں بہتری کے باوجود یہ تعلقات ایک ’گاہک اور تاجر‘ سے زیادہ کے نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا اور سعودی عرب کے روابط پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی طرح وسیع نہیں۔

پروفیسر آفتاب کمال پاشا

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا

تو کیا ولی عہد کے اس دورے سے سعوعی عرب کا جھکاؤ انڈیا کی طرف بڑھے گا؟ ماہرین کہتے ہیں کہ انھیں کسی بڑی تبدیل کی توقع نہیں ہے۔

دہائیوں سے مغربی ایشیائی سیاست پڑھانے والے پروفیسر پاشا وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ایسا ایران، یمن اور خلیج میں قطر کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے ہے۔ سعودی عرب کوئی بڑا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکی صدر ٹرمپ کے جانے کے بعد اگر سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعاون کم ہو جاتا ہے تو کوئی بھی ملک اس کے دفاع کے لیے سامنے نہیں آئے گا سوائے پاکستان کے، جو اس کا طویل عرصے سے اتحادی ہے۔‘

’یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو گنوانا نہیں چاہتا اور اس نے مشکل وقت میں پاکستان کی عسکری امداد میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ دوسری جانب ریاض کو یہ معلوم نہیں کہ آیا انڈیا اسے سکیورٹی اور عسکری تعاون دے گا بھی یا نہیں۔‘

روایتی طور پر سعوی عرب اور پاکستان کے تعلقات چٹان کی طرح مضبوط ہیں اور ایسا تعلق باہمی اعتماد کی وجہ سے ہے۔ تنازع کشمیر اور افعانستان کے معاملے میں سعودی کا عرب کا جھکاؤ پاکستان کی جانب ہے۔

سعودی عرب

تاہم حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے دنیا میں انڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کو تسلیم کیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تجارت گذشتہ برس 27 ارب ڈالر تک جا پہنچی اور اندازہ ہے کہ آئندہ برس یہ 49 ارب ڈالر تک چلی جائے گی۔

لیکن تجارتی توازن انڈیا کے خلاف ہے تو یہ اس کی حکومت کے لیے تشویش ناک امر ہے۔

یہ اتنا اہم نہ ہوتا اگر سعودی عرب نے وعدے کے مطابق انڈیا میں 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوتی جس کا وعدہ سنہ 2010 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کے ریاض دورے کے موقعے پر کیا گیا تھا۔

لیکن صرف ایک ارب ڈالر کے بھی ایک تہائی حصے کی سرمایہ کاری کی گئی، جبکہ انڈیا کی سعودی عرب میں کی گئی سرمایہ کاری ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی ہے۔

پروفیسر پاشا کہتے ہیں ’انھیں انڈیا میں دلچسپی نہیں ہے کیونکہ یہ ہم ہیں جو ان سے چیزیں چاہتے ہیں۔ چاہے وہ تیل ہو، ہمارے مزدوروں کے لیے وہاں نوکریاں ہوں یا سعودی سرمایہ کاری ہو۔ اور جہاں تک انڈیا کی بات ہے اس کے لیے سعودی عرب اتنا سٹرٹیجک نہیں ہے جتنا چین، پاکستان اور امریکہ ہے۔‘

اس میں کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ انڈیا کی ابھرتی ہوئی معیشت کو بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کے پاس سرمایہ کاری کے لیے ایک کھرب ڈالر کے فنڈز موجود ہیں۔ اسے اپنی سرمایہ کاری کو متنوع بنانے کے ضرورت ہے، انڈیا کے پاس ایک بڑی مارکیٹ ہے۔

منطق کہتی ہے کہ اگر دونوں کے تعلقات گہرے ہوتے ہیں تو ایک ایک دوسرے کے لیے فائدے مند ہو سکتے ہیں۔ لیکن سعودی عرب نے اب تک سرمایہ کاری کے لیے انڈیا کو اتنی اہمیت نہیں دی ہے۔

پروفیسر پاشا کہتے ہیں ’چاہے پاکستان ہو یا انڈیا، مالدیپ پو یا مصر یا پھر سوڈان، سعودی عرب سے سبھی سے سرمایہ کاری کے وعدے کر رکھے ہیں لیکن ان میں سے محض 10 سے 15 فیصد ہی پورے ہوئے۔ اس کی وجہ تیل کی قیمتیں سعودی عرب کی متوقع قیمیت 78 ڈالر فی بیرل تک نہیں پہنچ سکیں اور یمن کی جنگ پر اس کا بہت خرچ آیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’سعودی یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات کتنے گہرے ہونے چاہیئں۔ ‘

کہانی کا انڈین پہلو

لیکن اس کہانی کا ایک انڈین پہلو بھی ہے۔ غیر مستحکم خلیجی خطے میں انڈیا کے ایران کے ساتھ تاریخی روابط ہیں جبکہ قطر کے ساتھ بھی مضبوط تعلق ہے اور ان دونوں ملکوں کو سعودی عرب اپنا دشمن گردانتا ہے۔

مودی

اسرائیل بھی انڈیا کا قریبی دوست ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا سعودی عرب کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات بنانے کے لیے ان دوستوں کو ترک کرے گا؟

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کی پالیسی ہے کہ دوستوں کے درمیان دخل اندازی نہ ہو اور توازن قائم رہے۔ جلد بازی میں انڈین خارجہ پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔`

فی الوقت انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان تعلق صرف سعودی عرب میں کام کرنے والے انڈین بادشنوں اور باہمی تجارتی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہی ہے۔

انڈیا کو امید ہے کہ طاقتور ولی عہد کا دورہ دونوں ممالک میں گرم جوشی اور تعلقات میں اہم پیش رفت کا باعث بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp