پہلی لڑکی – عصمت چغتائی کا رومانی افسانہ


جب صبح ہی صبح جھکی ہوئی نظروں سے ماتھے پر ذرا سا آنچل کھینچ کر حلیمہ نے بیگم کو سلام کیا تو ان کی باچھیں کھل گئیں، خیر سے صاحبزادے کی طرف سے جو جان کو دھگدا لگا ہوا تھا۔ وہ تو دور ہوا۔ فورا دریائے سخاوت میں ابال آگیا چھ جوڑے جو اسی مبارک موقعے کے لیے تیار رکھے تھے۔ عنایت ہوئے۔ ہاتھوں میں نوگریاں، گلے میں ٹھسی اور طلائی ایران، جو صنوبر کی موت کے بعد چھوٹے میاں کی باندی کے لیے سینت لیے گئے تھے اپنے ہاتھ سے بیگم نے دے دیے تیل، پھلیل، سرمہ، مسی اور اب تو نگوڑے پاؤڈر کا بھی فیشن چل گیا ہے۔ سب ہی کچھ مہیا کیا گیا صاحبزادے کو رنڈی میں بیگم کا مزہ ملنا چاہیے۔ باجرے کی روٹی بھی اگرچہ گھی سے کھائی جائے تو پراٹھوں کا لطف دیتی ہے۔

منہارن بی نے سرخ سبز چوڑیاں پہنائیں، غریب حلیمہ گھٹنوں میں سردیے بیٹھی رہی۔ منہارن بی کی گندی گندی دعاؤں پر پانی پانی ہوئی جارہی تھی۔ مردان خانے سے ملحقہ چھوٹا سا گھر چھمن میاں اور ان کی باندی کے لیے جھاڑو پونچھ کر سنوارا گیا۔ باندی بھی عارضی بیوی ہوتی تھی۔ صاحبزادے کی خدمت گزاری سے جو وقت ملتا وہ سلائی کڑھائی اور گھر کی سجاوٹ میں صرف ہوتا۔ بھاری کام نہیں لیے جاتے زیادہ سے زیادہ گلوریاں بنا دینا، پان دھونا، سپاری کتر دینا، اپنے کپڑوں کے علاوہ میاں کے کپڑے دھوبی کو دینا لینا، کاج بٹن کا خیال رکھنا، غسل کروانا اور ایسے ہی ہلکے پھلکے کام۔

تبھی تو باقی چھوکریاں نواب زادوں کی باندیوں کو بڑے رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتیں، باسی سڑے کھانوں کے بجائے صاحبزادے کے ہاتھوں ترنوالے ملتے تھے۔ صاف ستھرا بستر، اپنے کام کے بعد مزے سے پیر پھیلائے سوئے اور چھمن پر تو سب لونڈیاں مرتیں تھیں۔ بالکل اللہ میاں کی گائے تھے کبھی کسی کو ننگی ننگی نظروں سے گھورا تک نہیں۔ سب ہی کو ارمان تھا کہ اللہ ان نے نصیب میں بھی چھمن سرکار جیسا نواب زادہ لکھا ہو۔ گویوں نے پکڑ کر اسے سچ مچ دلہن بنا ڈالا۔ مہندی لگائی، خوب مل مل کرنہلایا، نگوڑی رو پڑی۔ گندہ دھن چھوکریوں نے اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔

چھمن میاں کی خوشی تو نجم بٹیا کے ہار پھول سے بھی بڑھ چڑھ کر ہوئی۔ زور دار رت جگا ہوا۔ نایاب بوبو مسجد میں طاق بھرنے گئیں۔ مقطع داڑھی دار مولوی نے میلاد مبارک پڑھا۔ رات کو شاندار دعوت ہوئی۔ گھر میں مراثنیں اور باہر قوال آئے۔ بڑے سرکارتو مجرے کی بھی ضد کر رہے تھے مگر ان کی منہ چڑھی رنڈی کسی شادی میں گئی ہوئی تھی۔ تو پھر شادی کے سرکیا سینگ ہوتے ہیں! سچ پوچھئیے تو کیا نہیں ہوا۔ جہیز بھی ملا۔ منہ دکھائی ہوئی۔ بس نکاح کے دو بول نہیں پڑھے گئے۔ ویسے چھمن میاں تو ہر سانس میں نکاح کے وعدے کرتے ہیں، مگر نایاب بوبو کا کہناہے۔

”ان نواب بچوں کے وعدے پانی کا بلبلہ ہوتے ہیں۔ ویسے بنو جوتیاں کھانے کا شوق ہو تو نکاح کرلو نکاح۔ ایک چھوڑ دس کرو، پر رہوگی باندی کی باندی۔ بیگم بننا تھا تو کسی نواب زادی کی کوکھ سے جنم لیا ہوتا“۔

شیر مال، شامی کباب اور بریانی کھا کر بیویاں گلوں میں گلوریاں دبا کر گاؤتکیوں کے سہارے ہو بیٹھیں تو اللہ رکھے چھمن میاں اور خرمہ بٹیا کی شادی کا ذکر نکل آیا۔ حلیمہ، جو پاس بیٹھی گلوریاں لگا رہی تھی کتھے کی چمچی چونے میں اور چونے کی کتھے میں ڈالتی رہی۔ مریم باجی کی سالگرہ بھی اچانک ہوگئی۔ ویسے تو وہ جون میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن نومبر کوئی بہت فاصلے پر نہ تھا۔ دراصل یہ دعوت انیس میاں کے کہنے پر ہوئی تھی۔ وہ مریم کے لیے ایک بہت لائق لڑکا ڈھونڈ کر لائے تھے، آج اسے ایک شاندار دعوت کے بہانے سے مریم سے ملایا جارہاتھا۔

مریم سفید جھاگ سی ساڑھی میں واقعی کوئی مقدس روح لگ رہی تھی آج ان کی رنگت موم جیسی بے جان ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں انجانی اداسیاں تھیں۔ فرید احمد اسے مسحور ہو کر تک رہے تھے۔ نہ جانے انیس نے مریم کے کان میں کیا کہہ دیا کہ آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ وہ شادی کے لیے تیار نہیں تھیں۔ فرید احمد کو انیس گھیر کر لائے تھے۔

”مجھے شادی نہیں کرنا“۔ مریم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔
”اے لڑکی دیوانی ہوئی ہے تمہارے پاپا بہت اچھی سروس دلوا دیں گے۔ لڑکا غریب گھرانے کا ہے مگر سید ہے۔

”وہ سید ہو یا شیخ، مجھے کسی سے شادی نہیں کرنا“۔ وہ روتی ہوئی کمرے میں بھاگ گئی تھیں۔ حرمہ کی نگاہیں دروازے پر لگی تھیں۔ سب آچکے تھے، صرف منصور غائب تھے اور جب وہ میلی قمیص پہنے بالوں میں انگلیوں سے کنگھا پھیرتے بھری محفل میں آن دھمکے تو جی ہی جی میں اس کی سبکی ہو گئی۔

”اے لڑکے کہاں غائب تھا؟ ایسی کون سی نوکری ہے کہ دن ہے تو کام رات ہے تو کام۔ آج اتوار کو بھی کام تھا؟ “
”اے ممانی بیگم نوکری نہ نوکری کی دم۔ بیگار ہے بیگار۔ تنخواہ نہیں ملتی“۔ افضل میاں نے تشریح کی۔

”اوئی خدا کی مار اس نوکری پر شاید اپنی مستقل نہیں ہوئے؟ “
”اکابی تنخواہ کا تو ذکر ہی نہیں۔ مستقل ہوکر بھی نہیں ملتی“۔

”اے لوگو یہ کیسا اندھیرا ہے لڑکا دن رات کام میں جٹا ہوئے ہے اور کوڑی نہیں ملتی۔ اے بھیا کیا اللہ واسطے کا کام ہے؟ “
”اللہ واسطے کا کیوں شیطان واسطے کا کہو۔ یہ جو آئے دن شہر میں لاٹھی گولی چلتی ہے یہ ان ہی کی عنایت کا نتیجہ ہے“۔ حیدر چچا نے قہقہہ لگایا۔

”اے تو یوں کہو پولیس میں ہے۔ پر بھیا پولیس میں تو بڑی آمدنی ہے“۔ ایک چندھی سی نانی اماں بولیں۔
”اے اکا بی تم ٹھہریں سدا کی کوڑھ مغز، تمہارے پلے نہیں پڑے گی یہ بات“۔

”کاہے تو سرکھپا رہی ہو؟ مزے سے چھالیا کاٹو چھالیا“۔
”اکابی یوں سمجھو کہ پولیس کی لاٹھیوں کے لیے کھوپڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس یہ لوگ کھوپڑیاں تھوک میں سپلائی کرتے ہیں“۔ حیدر چچا بولے۔

”اے ہے لڑکے یہ کیا سڑپٹا ہے۔ ڈھنگ کی کوئی نوکری کیوں نہیں ڈھونڈتا؟ “
اکابی بولے چلی گئی۔

”آپ نوکر رکھ لیجیے اکابی۔ منصور نے اس کے پاس گھس کر کہا۔
”اے چل دیوانے“۔

”سچ اکابی۔ آپ کا پاندان مانجھا کروں گا، وضو کا لوٹا بھرا کروں گا اور۔ پان کٹی میں پان کو ٹ کر کھلایا کروں گا“۔
”کیا مطلب؟ کتنی نوکریاں تم اکیلے کرو گے؟ “

”نہیں صاحب میں اکیلا نہیں کروں گا۔ یہی کوئی دو ڈیڑھ لاکھ نوکریاں دلوادیجئے۔ فی الحال کافی رہوں گا“۔
”آپ مذاق فرمارہے ہیں؟ “۔ حیدر چچا نہ طنز کیا۔

”نوکری تمہیں چاہیے یا پورے شہر کو؟ “ مختار صاحب بولے۔
”جی عرض تو کیا کہ دو ڈیڑھ لاکھ بیکار ہیں شہر میں“۔

”اماں گھاس کھا گئے ہو۔ کیا کسی نے ساری دنیا کا ٹھیکہ لیا ہے“۔ افضل میاں چڑ گئے۔
”اوہ، تو آپ کا مطلب ہے صرف مجھے نوکری دلوائیں گے؟ “

”اور نہیں تو بقول افضل میاں ٹھیکہ نہیں لیا“۔ حیدر چچا بولے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3