پلوامہ سے نہیں اگلامہ سے ڈریں


لیڈر وہ ہوتا ہے جو پرچی پڑھے بغیر تقریر کر گزرے۔ دیکھنے والے بھلے گزر جائیں بے تکی باتاں سنتے۔ کپتان نے پلوامہ حملے پر خطاب کر ہی دیا۔ کچی پکی راہوں سے اچھلتے پھدکتے گزر کر تڑی لگا دی کہ دیکھو جنگ انسان ہی شروع کرتے ہیں ختم پھر اللہ دی مرضی سے ہی ہوتی۔ نہیں یقین تو ٹرمپ سے پوچھ لو۔
کوئی ثبوت ہے تو لاؤ ہم کارروائی کریں گے کہ یہ نیا پاکستان ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اگر کوئی ردعمل دینا تھا تو اس کا وقت گزر چکا۔ اب جنگ کے بعد والے گھونسے ہیں جتنے مرضی اپنے مارے جا سکتے۔ مودی اک جارحانہ پاکستان مخالف شدت پسند ہندو لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ جو بھارت مہان کے ہر دشمن کو دھول چٹانے کے لیے مسل دکھانے کے قائل تھے۔

ان کا ایسا امیج بہت کوشش سے بنایا گیا تھا۔ اس امیج بلڈنگ پر بہت خرچہ کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے احتیاط اتنی کی جاتی ہے کہ بھارتی وزیراعظم کا کوئی ون ٹو ون انٹرویو کا آپشن لینے سے بھی گریز کیا جاتا کہ امیج کو نقصان نہ پہنچ جائے۔

مودی الیکشن سے ذرا پہلے پلوامہ حملہ ہونے سے بری طرح پھنس گئے ہیں۔ اپنے دعووں پر عمل کرنے کا جو کہا وہ کر دکھانے کا ان کے لیے یہی وقت تھا۔ بظاہر چلیں انڈین اپروچ مطابق ہی پاکستان نے بھارت کو ایک چیلنج تو دے ہی دیا تھا کہ چل باتیں نہ کر کچھ کر کے دکھا۔

پلوامہ حملے کے بعد بھارت سرکار نے اے پی سی طلب کر لی۔ اس کے لیے پہلے سے ایک اعلامیہ بھی تیار کر رکھا تھا کہ سب پارٹیاں آئیں اس دستخط کریں۔ جب اے پی سی ہوئی تو بنگال کی ممتا بینر جی نے مشترکہ اعلامیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

بھارت سرکار جو اعلامیہ منظور کرانا چاہ رہی تھی اس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ ”ہم اپنی سیکورٹی فورسز کے ساتھ متحد کھڑے ہیں اپنی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے عملی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں جو اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے درکار ہیں“

ممتا بینر جی نے رولا ڈال دیا کہ مرکزی ریاستی حکومتوں کو عملی اقدامات جواب کی حمایت دینے کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ لوگ جنگ بھی کر سکتے ہیں، کوئی ریاستی حکومت بھی ختم کر کے گورنر راج لگا سکتے، ریاستی یا مرکزی الیکشن بھی ملتوی کر سکتے ہیں۔ تو ہم ایسی کھلی غیر مشروط حمایت نہیں کرتے۔

حکومت اسمبلی کا چل چلاؤ ہے انہیں اب ایسے فیصلہ کن اقدامات کا اختیار ہی نہیں۔ ممتا بینر جی کے موقف کی انڈین کانگریس اور دوسری چھوٹی پارٹیوں نے بھی حمایت کر دی۔
اس کے بعد جو اعلامیہ منظور ہو سکا وہ یہ تھا کہ ”ہم سب اپنی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ بھارت کے دفاع سالمیت اور وقار کے لیے متحد ہیں“۔

بھارتی میڈیا مسلسل جلتی پر تیل ڈال رہا۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں اپنی حکومت سے واضح فاصلے پر چلی گئی ہیں۔ اب جو کرنا ہے مودی نے خود کرنا ہے۔ اپنی اپوزیشن کی تنقید بھی بھگتنی مرنی ہے اور اک شدت پسند ہندو لیڈر کا تاثر بھی بچانا ہے۔

مودی کی پوزیشن اس وقت بہت نازک ہو چکی۔ یہ خدشات حقیقی ہیں کہ وہ کوئی ایڈونچر کر سکتے ہیں کہ اپنی باتوں نعروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یا تو چپ چاپ بیٹھے بٹھائے اپنا الیکشن اپنی مقبولیت ڈوبتی دیکھیں یا کچھ کر کے سب کو ساتھ ڈوبنے کا نہیں تو غوطے کھانے کی سہولت فراہم کریں۔

نصرت جاوید نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ان کی نظر میں ”امریکی بجائے معاملہ ٹھنڈا کرنے بھارت کو اکسا ہی رہے ہیں کہ جا جو کرنا ہے کر لے“۔ ان کا مقصد یہی لگتا کہ جنگ لگے کوئی لائیو فلم دیکھنے کو ملے۔ پاکستان بھارت کا جو بلف ہے یہ بھی کال ہو ہی جائے کہ پتہ لگے کہ کتنا لڑتے ہیں۔

امریکیوں کے اس فلمی موڈ کا لگتا ہمارے ہاں بھی اندازہ ہو گیا ہے۔ تبھی ہمارے وزیراعظم لائیو آئے ہیں۔ ان کے اپنے بقول انہوں نے بھارت کے عوام اور حکومت سے خطاب کیا ہے۔
یہ اچھا کیا ہے کہ ڈپلومیسی گرو کا قول ہے کہ جب آپ کو اپنے آپشن محدود ہوتے دکھائی دیں تو آپ مخالف کو مذاکر ات کی دعوت دے کر اپنے لیے وقت حاصل کر لیں۔ کپتان نے بروقت خطاب کیا۔

امید تو یہی رکھنی چاہیے کہ اچھل کود کے بعد آخر کار سگنل بحال ہو ہی جائیں گے عقل کام کرنے لگے گی۔ خرابی کی طرف جاتے حالات بہتر ہونے لگیں گے۔

پر جنگی ترانوں کے اس ماحول میں کچھ تو حصہ ڈالنا اپنا بھی بنتا ہے۔ اک ماہر امور ”جنگ کشمیر“ سے بات ہوئی۔ اس کا کہنا تھا ٹینشن یہ نہیں ہے کہ پلوامہ میں کیا ہوا۔ اس پر اب بھارت کیا کرے گا۔ ٹینشن اس سے زیادہ یہ ہے کہ اگلامہ نہ ہو جائے۔

اگلامہ کی وضاحت کرتے ہمارے ماہر کا کہنا تھا کہ جب کوئی عسکری کارروائی ہوتی ہے۔ تو جو تنظیم ایسا کرے اس کی بلے بلے ہو جاتی ہے۔ وہ چوڑی ہو کر پھرتی ہے۔ باقی حریف یا سسٹر تنظیمیں جل بھن جاتی ہیں۔ وہ پھر کوشش کرتی ہیں کہ خود بھی کچھ کریں۔ کچھ ایسا کہ لوگ کہیں کہ واہ مجاہدو۔
اس واہ کے چکر میں پھر کچھ ہو گیا تو رونق تب لگنی ہے، اس لیے مودی سے ڈر نہیں لگتا اگلامہ سے لگ رہا ہے ۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi