نریندر مودی کی بدحواسی اور ایم بی ایس کا مشورہ


بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ چند روز کے دوران جس تسلسل سے پاکستان کے خلاف بیانات دیے ہیں اور غم و غصہ کا اظہار کیا ہے، اس سے ان کی بدحواسی ظاہر ہونے لگی ہے۔ ان بیانات سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ایک طرف نریندر مودی پلوامہ حملہ میں ہونے والی ہلاکتوں کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے اپریل میں ہونے والے انتخابات میں اپنی ممکنہ شکست کو جیت میں بدلنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف دنیا کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو تنہاکیے بغیر برصغیر میں معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔

مودی اور بھارتی جنتا پارٹی گزشتہ چند روز میں نفرت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پاکستان سے ’انتقام‘ لینے کی فضا بنانے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے کسی تعرض کے بغیر حکومت کے مؤقف کا پرچار کیا ہے بلکہ بدلہ لینے کے نعروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا کی طرح نریندر مودی کی حکومت کو بھی خبر نہیں ہے کہ پاکستان پر الزام لگانے کے بعد اس سے کیسے بدلہ لیا جائے۔ پاکستان اگرچہ بھارت کے مقابلے میں چھوٹا ملک ہے اور اس وقت اسے شدید مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے لیکن اس کے پاس بہترین تربیت یافتہ فوج ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے عملی جنگ میں طاق ہوچکی ہے۔ جبکہ بھارتی فوج کے پاس اس صلاحیت کی کمی ہے۔

اب یہ بات دنیا کے بیشتر ملکوں کے علاوہ بھارت کے ہوشمند لوگوں کو بھی سمجھ آنے لگی ہے کہ حکومت نے جمعرات کو ہونے والے حملہ کے بعد کسی ثبوت کے بغیر اور تحقیقاتی ٹیم کے جائے حادثہ پر پہنچنے سے بھی پہلے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور الزام تراشی کا محاذ گرم کرلیا تھا۔ اس مہم جوئی میں نریندر مودی خود پیش پیش نظر آئے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ جوانوں کی موت کا انتقام لیا جائے گا اور بھارتی فوج کو کارروائی کرنے کے لئے ہر طرح کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔

 کبھی وہ عام جلسے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ’جس طرح آپ لوگوں کے دل غصے سے بھرے ہوئے ہیں، میرے دل میں اس سے بھی بڑھ کر غصہ اور انتقام کی آگ ہے‘ ۔ اور آج بھارت کا دورہ کرنے والے ارجنٹائین کے صدر ماریسیو ماسری کے ساتھ ملاقات کے بعد نئی دہلی میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ’پلوامہ کے حملے کے ساتھ بات چیت کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اب دہشت گردی کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کارروائی سے ہچکچاہٹ بھی دہشتگردی کو فروغ دینے کے برابر ہے‘ ۔ بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ ’اب پوری دنیا کو متحد ہو کر دہشت گردی اور اس کے حامیوں کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اب کارروائی سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردوں اور ان کے انسانیت دشمن حامیوں کے خلاف اقدام ضروری ہوگیا ہے‘ ۔

نریندر مودی نے نام لئے بغیر اشاروں کنایوں میں پاکستان کے خلاف نام نہاد ’کارروائی‘ کی تکرار کی ہے۔ اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ بھارتی لیڈر خوں خوار لب و لہجہ میں بیان تو دے رہے ہیں لیکن یہ کام کرگزرنے کے لئے ان کے پاس نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی موجود ہے۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں اپنے خطے کے نہتے لوگوں کے خلاف ایک ناکام اور شرمناک جنگ میں مصروف ہے۔ اس وقت کشمیری نوجوانوں میں جو غم و غصہ پایا جاتا ہے، اسے پیدا کرنے میں بھارتی فوج کی نا انصافیوں، بدترین ظالمانہ ہتھکنڈوں اور نوجوانوں کے ساتھ مسلسل ہتک آمیز اور وحشیانہ سلوک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

جب یہی نوجوان ناراضی اور مایوسی کے عالم میں ہتھیار اٹھا نے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ مل کر فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے خلاف متحرک ہوتے ہیں تو پاکستان پر الزام لگا کر بھارت کے ہندو انتہا پسندوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو تنہا کرے اور اسے سفارتی دباؤ میں لائے۔ لیکن اس کے بعد بھارت کی حکمت عملی جواب دینے لگتی ہے۔

بھارتی حکومت یا فوج تمام تر خواہش کے باوجود پاکستان کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کی دھمکیاں دینے اور جنگی ماحول بنانے کے باوجود یہ اقدام کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں بڑی اور ترقی پذیر معیشت ہونے کی وجہ سے بھارت کو ہی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ فی زمانہ جنگ اگر انتقام کا نام ہے تو اسے شروع کرنے والے کو خود اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ امریکہ جیسی سپر پاور نے نائن الیون حملوں کے بعد انتقام لینے کے لئے ہی پہلے افغانستان پر حملہ کیا اور پھر عراق کو نشانہ بنایا لیکن دو دہائی بعد وہ اس جنگ میں بے شمار مالی اور جانی نقصان اٹھانے کے بعد اب کسی بھی قیمت پر طالبان سے معاہدہ کرکے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی خواہش رکھتا ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور اور بے بہا وسائل سے مالا مال ملک ہے اور یہ جنگ اس نے اپنے کسی ہمسایہ ملک یا باقاعدہ فوج کے خلاف نہیں کی تھی بلکہ ہزاروں میل دور دو نہتے اور بے وسیلہ ملکوں پر حملہ کرکے ’انتقام‘ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارت اگر پاکستان کو کسی ایک دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے کر سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرتا ہے یا کسی قسم کی فوجی کارروائی ہوتی ہے تو پاکستان کی طرف سے فوری طور پر اس کا جواب دیا جائے گا۔

 یہ فیصلہ ہونے سے پہلے کہ بھارت بڑا اور زیادہ وسائل والا طاقت ور ملک ہے، ایک تو ملک کے اندر ہونے والے نقصان پر واویلا سامنے آئے گا دوسرے پوری دنیا ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ملکوں کے درمیان تصادم کو ختم کروانے کے لئے میدان میں اتر آئے گی۔ یہ صورت حال بھارت کے لئے معاشی تباہی، سفارتی پشیمانی اور سیاسی ناکامی کا سبب بنے گی۔ جو لوگ آج نریندر مودی کی جنگ جوئی کی باتوں پر تالیاں پیٹتے ہیں جب انہیں گھروں اور صنعتوں کے ملبے اٹھانے پڑیں گے اور جنگ کا عفریت جب ان کے روزگار نگلے گا تو وہ سب سے پہلے مودی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ہی نعرے لگائیں گے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali