ویلے بھی اور غریب بھی۔۔۔


کچھ دن پہلے شومئی قسمت سے رش آور میں براستہ مری روڈ راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں مریض کی عیادت کو جانا تھا۔ جس طرح پاکستان میں لڑکیاں اپنے آپ کو بچا بچا کر چلتی ہیں تو ویسے ہی ہمارے میاں گاڑی بچا بچا کر چلا رہے تھے۔ ہم پسنجر سیٹ پر بیٹھے پاکستان کی ٹریفک کی حالات اور لوگوں کے ویلے پنے کا رونا رو رہے تھے۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ لوگ یہاں گاڑی ایسے چلاتے ہیں جیسے صدر پاکستان سے میٹنگ کے لئے لیٹ ہو رہے ہیں لیکن ماشاللہ پہنچتے ہر جگہ دیر سے ہی ہیں اور اگر راستے میں کوئی ایکسیڈنٹ نظر آ جائے تو باقاعدہ رک کر اس کا نظارہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔

ابھی یہ رونا جاری و ساری تھا کہ ڈھا کی آواز سے پوری گاڑی ہل گئی۔ پیچھے دیکھا تو ایک رکشا الٹا پڑا تھا جس میں سے ڈرائیور برآمد ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ جانے کہاں سے 4-5 سیکنڈ میں 10-15 لوگ پہنچ چکے تھے۔ ہماری گاڑی کا بمپر اندر اور بیک لائٹس شہید ہو چکی تھی۔ میاں نے گاڑی کو سائیڈ پر پارک کیا اور اتر کر رکشے والے کے پاس پہنچے جو اتنی دیر میں رکشے سے برآمد ہو چکے تھے اور رکشا سائیڈ پر لگا کر لوگوں کی توجہ کا مزہ لے رہے تھے۔

میں گاڑی میں ہی بیٹھی رہی کیوں کہ ایک پورا ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا۔ 2-3 منٹ میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک سفید رنگ کی مہران ہماری گاڑی کے آگے آ کر پارک ہو جاتی ہے۔ اس میں سے کوئی 30-32 سال کے ایک صاحب برآمد ہوتے ہیں، گاڑی لاک کرتے ہیں اور جوش و خروش سے ایکسیڈنٹ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ گاڑی سے کچھ پیچھے ہمارے میاں اور رکشے والے میں مکالمہ جاری ہے، جس کا ذکر میں بعد میں کرتی ہوں۔

خیر یہ صاحب جا کر میرے میاں اور رکشے والے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور پوری توجہ سے مکالمہ سننے لگتے ہیں۔ بتاتی چلوں کہ ہلکی ہلکی بارش جاری تھی اور درجہ حرارت کافی ٹھنڈا تھا۔ تو یہ صاحب کچھ دیر وہاں کھڑے رہتے ہیں پھر جانے کیا خیال آتا ہے۔ اپنی گاڑی کی طرف آتے ہیں۔ پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولتے ہیں اور وہاں سے 3 بچے برآمد کرتے ہیں۔ ان بچوں کی عمریں کوئی چار سے دس سال کے بیچ میں ہیں۔ اب یہ صاحب ان تین بچوں کو لے جاتے ہیں اور پھر سے مکالمہ سننے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بچے اور ابّا جان (غالباً) ایسے ہی مزید کچھ دیر کھڑے رہتے ہیں۔ یک دم بارش زور پکڑتی ہے تو ابّا جان بچوں کو واپس گاڑی میں لاتے ہیں اور خود دوبارہ جا کر مکالمہ سنے میں ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔

میں یہ ساری کہانی اپنی گاڑی سے بیٹھی دیکھ رہی ہوں اور حیران ہوں کہ آخر یہ صاحب کون ہیں اور کتنے ویلے ہیں۔ پھر سوچا میں ہی غلط سوچ رہی ہوں شاید رکشے والے کے جاننے والے ہوں گے ۔ آخر15-20 منٹس بعد میرا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور میں گاڑی سے اتر کرپیچھے پہنچ گئی۔ جا کر میاں سے اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ میاں نے کہا یار پتا نہیں ایسے ہی کھڑے ہیں ۔ میں نے صاحب کی طرف منہ کیا اور پوچھا

کیا آپ تماشا دیکھنے کھڑے ہیں؟

صاحب: نہیں نہیں کیسا تماشا۔۔ میں تو ویسے ہی۔۔۔

جناب گھر جائیں۔۔ آپ کے بچے گاڑی میں ہیں یہ مسئلہ آپ کا نہیں ہے

صاحب: نہیں نہیں میں تو یہیں ۔۔ ویسے ہی۔۔

میں نے دل ہی دل میں ان پر تین حرف بھیجے اور مکالمے کی طرف متوجہ ہوئی۔ میاں گاڑی کی لائٹ اور بمپر دیکھ کر کافی غصے میں تھے۔ رکشے والا شاید کچھ تیوروں سے گھبرا کر لنگڑا کر چل رہا تھا اور ایک ہاتھ سے دوسرا بازو پکڑا ہوا تھا ۔

” میاں: “یار عجیب آدمی ہو! آ کر ٹھونک دی گاڑی تم نے۔ اب یہ نقصان کون بھرے گا ؟”

” رکشے والا : “جی سر دیکھیں چوٹ لگی ہے مجھے ۔ ہاں جی میری غلطی ہے۔ بس سر میں کیا کروں۔ غریب آدمی ہوں”

 “میاں ” او یار غریب آدمی ہو دیکھ کر نہیں چلا سکتے؟۔ میں کہاں سے نقصان پورا کروں اب؟ “

” رکشے والا ” جی سر بس سر میں غریب آدمی ہوں”

ایک اور رکشے والا ” جانے دیں جناب۔ غریب آدمی ہے”

“۔۔ہجوم ” جی سر جانے دیں غریب آدمی ہے “

میں نے میاں کا بازو پکڑا اور چلے ” جانے دو یار سچ میں غریب آدمی ہے۔ ہمارے گھر میں تو پیسوں کا درخت لگا ہے۔ ایک بیک لائٹ کا بھی لگا لیں گے۔ لوگوں نے گھر بھی جانا ہے۔ چلو جی، چلو”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).