کشمیر کے معاملے میں انڈیا کا سچا دوست ایران ہے یا سعودی عرب؟


انڈیا اور ایران کی دوستی

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان منگل کی رات انڈیا کے دو روزہ دورے پر دلی پہنچ رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ پاکستان کے دورے پر تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دورے کے لیے انڈیا سے پہلے پاکستان جانے کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔

سعودی عرب اور پاکستان کا تعلق تاریخی رہا ہے۔ کشمیر سے لےکر طالبان تک کے معاملے پر سعودی عرب پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا آیا ہے۔ سنہ 2016میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اور اس کے بعد سعودی عرب نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے طور پر کشمیریوں کے فیصلے کو ترجیح دینے کی حمایت کی تھی۔ سعودی عرب نےاو آئی سی کے اجلاس میں یہ بات کہی تھی۔

دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر اس کا موقف پہلے جیسا ہی ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔

دہائیوں تک انڈیا کی خارجہ پالیسی غیر وابستہ رہی اور اس نے کسی سپر پاور کے ساتھ منسلک ہونے سے گریز کیا۔ سرد جنگ کے دوران انڈیا نہ تو مغربی ممالک کے ساتھ ہوا اور نہ ہی سوویت یونین کی رہنمائی والے ممالک کے ساتھ۔۔ انڈیا ان ممالک کے ساتھ تھا جو دونوں میں سے کسی بھی جانب نہیں تھے۔

آج کی تاریخ میں مشرق وسطیٰ میں انڈیا کے سعودی عرب، ایران اور اسرائیل تینوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

دوسری جانب ان تینوں ممالک کے تعلقات آپس میں اچھے نہیں ہیں۔

ایران کی سعودی عرب اور اسرائیل سے دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی دشمنی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

مشرق وسطیٰ سے انڈیا کی توانائی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ دوسری جانب خلیجی ممالک میں انڈیا کے لاکھوں لوگ کام کرتے ہیں۔ اس لیے انڈیا خلیجی ممالک کے ساتھ بھی بہت محتاط رہتا ہے۔

انڈیا اور ایران کے تعلقات

سعودی عرب نہیں چاہتا کہ اس کے ہمسایوں کی دوستی ایران سے رہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان دشمنی سے انڈیا کی پریشانی میں اضافہ لازمی ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ انڈیا کے مفادات دونوں ممالک سے جڑے ہیں۔

جی سی سی کے ممالک مشرق وسطیٰ میں انڈیا کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔ اس درمیان انڈیا سے چین کا 70 ارب ڈالر کا کاروبار رہا ہے۔

سنہ 2014میں انڈیا کا ایران کے ساتھ 16 ارب ڈالر کا کاروبار تھا۔ سابق امریکی صدر براک اوباما نے ایران سے پابندیاں ہٹا دی تھیں اور اس درمیان دونوں ممالک کے کاروبار میں اضافہ ہوا تھا۔

انڈیا اور ایران کے تعلقات

سعودی عرب اور ایران کے درمیان اگر کوئی سیدھا ٹکراؤ ہوتا ہے تو انڈیا کے مفادات بظاہر متاثر ہوں گے۔ انڈیا کے تجارتی راستے متاثر ہوں گے۔

اگر انڈیا کے ایران سے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو اس کے تیل اور گیس کا تیس ارب ڈالر کا کاروبار برباد ہوگا۔ ظاہر ہے کہ تجارت کے اعتبار سے دیکھیں تو جی سی سی ممالک سے انڈیا کے تعلقات خاصے اہم ہیں۔

خلیجی ممالک میں بڑی تعداد میں انڈین شہری کام کر رہے ہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ میں کوئی ٹکراؤ ہوتا ہے تو انڈیا بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔ جی سی سی کے چھ ممالک میں 55 لاکھ سے زائد انڈین شہری رہتے ہیں۔ سنہ 2015 سے 2016 کے درمیان وہاں کام کرنے والے انڈین شہریوں نے انڈیا میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو 36 ارب ڈالر بھیجے۔

انڈیا اور ایران کے تعلقات

اگر ایران اور سعودی عرب میں جنگ ہوتی ہے تو انڈیا کو بڑی تعداد میں اپنے شہریوں کو وہاں سے باہر نکالنا ہوگا۔ یہ تعداد خلیجی جنگ سے بھی زیادہ ہوگی۔ اس وقت کویت سے تقریباً ایک لاکھ انڈین افراد کو باہر نکالا گیا تھا۔

جنگ کی صورت حال میں تیل اور گیس کی تنصیبات بھی متاثر ہوں گی اور اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ انڈیا اپنی توانائی کی زیادہ تر ضرورت جی سی سی ممالک سے پوری کرتا ہے۔

انڈیا صرف سعودی عرب سے ہی ہر روز سات لاکھ پچاس ہزار بیرل تیل خریدتا ہے۔ جنگ کی صورت میں تیل کی رسائی متاثر ہوگی۔ اور یہ انڈیا کی معیشت کے لیے بہت خطرناک بات ہوگی۔

انڈیا کے مقابلے اس علاقے میں چین بہت بڑی طاقت ہے۔ چین نے ان ممالک میں بے شمار سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری چین کی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت ہوئی ہے۔ انڈیا کی یہ بھی کوشش ہے کہ ایران چینی کیمپ میں نہ جائے۔

انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایرانی بندرگاہ سے انڈیا پاکستان کو بائی پاس کر کے خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں رسائی بنائے رکھ سکتا ہے۔

سنہ 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے افغانستان اور ایران کے ساتھ مل کر چاہ بہار بندرگاہ کو تکمیل دینے کا سمجھوتہ کیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کھل کر سامنے اس لیے بھی نہیں آ پاتا ہے کہ اس پر جی سی سی ممالک اور امریکہ کا دباؤ رہتا ہے۔

اس سب کے باوجود انڈیا کے تعلقات سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ مودی دونوں ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ ایرانی صدر بھی گزشتہ برس انڈیا کے دورے پر آئے تھے۔ قطر کے بارے میں بھی انڈیا بہت محتاط رہتا ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ ان دونوں ممالک کا آپس کا معاملہ ہے۔

انڈیا کو ایران اور سعودی عرب میں دشمنی کے درمیان اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات بنائے رکھنے کا موقع مل گیا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں انڈیا اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا اظہار کرنے سے گریز کرتا رہا ہے۔ انڈیا کو ہمیشہ یہ ڈر رہتا ہے کہ اسرائیل سے دوستی کہ وجہ سے خلیجی ممالک میں رہنے والے اس کے شہریوں کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ ایسے میں مودی اسرائیل جانے والے انڈیا کے پہلے وزیر اعظم ہیں۔

انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات

موجودہ وقت میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت کی توجہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مسئلے کو سلجھانے سے زیادہ اس بات پر ہے کہ ایران کے اثر و رسوخ کو بڑھنے سے کس طرح روکا جائے۔ دوسری جانب اسرائیل بھی ایران کی طاقت کو روکنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔

مودی گزشتہ برس جولائی میں جب اسرائیل گئے تھے تو انہوں نے فلسطینی اور اسرائیلی تنازع کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ مودی نے ایسا کر کے انڈیا کی روایتی خارجہ پالیسی کی لائن کو توڑا تھا۔

انڈیا ایشیا میں اپنا اہم کردار چاہتا ہے اس لیے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ انڈیا کو اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے میں ایران سے دوستی کے باوجود کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp