مرد بوڑھا نہیں ہوتا، اور عورت بھی آنٹی نہیں بنتی


انسانی نفسیات بھی عجیب رنگ لئے ہوئے ہیں۔ بچہ پیدا ہوتا ہے، جوں جوں وہ بڑا ہوتا ہے۔ ماں باپ اور ارد گرد کے لوگوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہی بچہ عمر کے مراحل طے کرتے ہوئے جب ٹین ایج اور پھر جوان ہوتا ہے تو بھی دیکھنے والے خوش ہوتے ہیں۔ اب یہاں ہمیں لوگوں کے ڈبل سٹینڈرڈز نظر آتے ہیں۔ بچہ اگر مرد ہے تو اس کی ہر عمر قابل رشک ہے۔ بقول میری نانی اماں کے مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور میرے یہ پوچھنے پہ کہ پھر عورت کیوں بوڑھی ہو جاتی ہے، ہمیشہ مجھے ڈانٹ ہی پڑی۔ مرد سے مقابلے نہیں کرتے کہہ کے مجھے چپ کروا دیا جاتا۔ خیر بات ہو رہی ہے عمر کی۔ تو یہاں مرد تو اپنی ہر عمر کو انجوائے کرتا ہے۔ جب وہ لڑکا ہو، بھرپور جوان ہو، ادھیڑ عمر ہو، یا بوڑھا ہو رہا ہو۔ اس کی تقریبا ہر حرکت، فعل یا بات درست ہوتی ہے۔

عمر کو لے کر عورت کے ساتھ دہرا رویہ ہمارے یہاں عام پایا جاتا ہے۔ لڑکی کم عمر اور جوان ہے تو اسے بچی کہہ کے پکارا جائے گا۔ پچیس سے اوپر ہوتے ہی اگر اس کی شادی نہیں ہوتی تو اس کی عمر نکلی جا رہی ہے کہہ کہہ کے اسے نفسیاتی مریض بننے پہ مجبور کر دیا جاتا ہے۔ تیس کراس کرتے ہی وہ عورت سے آنٹی بن جائے گی۔ آنٹی کی اصطلاح کا بھی مت پوچھیں۔ ہمارے یہاں تھرٹی پلس خواتین کو آنٹی کہہ کے پکارا جائے گا، زور لفظ آنٹی پہ ہو گا۔

اس لفظ سے ہمارے یہاں بہت سے نوجوان جنسی حظ اٹھاتے ہیں۔ اس بات کو لکھنے میں کوئی خیالی تصور نہیں ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مرد اگر تیس سال کراس کر لیتا ہے۔ تو اس کے لئے لفظ انکل کیوں عام نہیں ہوتا۔ تھرٹی پلس شادی شدہ مرد کو بھی بیس بائیس سالہ لڑکی کبھی انکل نہیں کہتی۔ لیکن دوسری طرف لڑکے ایسا کرتے ہیں۔

مسلہ صرف یہ سمجھنے کا ہے کہ لڑکی چاہے پندرہ کی ہو، پچیس کی ہو، پینتیس کی ہو، پچپن، پینسٹھ یا پچھتر سال کی کیوں نہ ہو۔ کیا عمر بڑھنے کے ساتھ اس کی عقل، ذہانت اور خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے؟ ہمیں یہ کیوں لگتا ہے کہ عورت صرف ایک سیکس اوبجیکٹ ہے اور اس کی میعاد بس پچیس سے تیس تک ہے۔ اس کے بعد والی عورت کو ہم نے بطور انسان ٹریٹ نہیں کرنا بلکہ بطور آنٹی ٹریٹ کرنا ہے۔ ہمارے ارد گرد لوگ تہذیب سے اس قدر نابلغ ہیں کہ پچھلے دنوں فیس بک پہ اپنی فرینڈز کے ساتھ لگائی جانی والی ایک تصویر پہ لڑکیاں لکھنے پہ کمنٹ سیکشن صرف آنٹیاں لفظ سے بھر گیا۔ دوستوں کے سامنے سبکی الگ محسوس ہوئی کہ کس قسم کے لوگ فرینڈ لسٹ میں ایڈ کر رکھے ہیں۔

لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ تھرٹی، فورٹی یا ففٹی پلس خواتین کو زندہ درگور کر دیں۔ مہذب معاشروں میں عورت چاہے کسی عمر کی ہو اسے مادام، میم، مس کہہ کے پکارا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں زیادہ تر مرد چونکہ چھنے کاکے بننے کے شوقین ہیں تو وہ ماسی، پھپھی، باجی یا آنٹی بول کے اپنے آپ کو تسکین دیتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ ہر عمر کی ایک خوبصورتی ہوتی ہے۔ یہ آپ پہ ڈیپینڈ کرتا ہے کہ آپ اسے کیسے کیری کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں عورت ایک بچے کے بعد ہی خود کی کئیر کرنا چھوڑ دیتی ہے اور کچھ عرصے میں بے ڈھنگے جسم کے ساتھ یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ اپنے لئے ٹائم نہیں ملتا۔ یہ خواتین کی اپنی ذات سے لاپرواہی ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے ڈائٹنگ اور سلمنگ سینٹر و جم کرنے والی لڑکیاں شادی کے بعد ہلکی پھلکی ایکسرسائز بھی نہیں کرتیں۔

انسان چاہے وہ مرد ہے یا عورت، بے شک اپنی خوبصورتی اور لکس کی وجہ سے جلدی نظروں میں آتا ہے۔ لیکن خوبصورتی کے ساتھ ساتھ آپ کی سوچ و شعور بھی آپ کی شخصیت کو چار چاند لگاتے ہیں۔ میری امی کہتی ہیں کہ مرد کی عمر چالیس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اور عورت کی عمر پینتیس کے بعد۔ کیونکہ اس سے پہلے دونوں مرد اپنے کاروبار یا جاب اور عورت بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش میں الجھی ہوتی ہے۔ اس کے بعد لائف ٹریک پہ آتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ دماغ کی شعوری بڑھوتری بھی ہوتی ہے۔ جو کہ زندگی کو بہتر جینے میں کام آتی ہے۔

سو پیغام بس یہ ہے کہ جس طرح اس معاشرے میں مرد کو جینے کے لئے آسانیاں اور سہولتیں میسر ہیں۔ ہر چند کہ عورتوں کے لئے بھی کافی آسانیاں ہیں لیکن بطور مہذب معاشرے کے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مہذب رویے بھی اپنانے ہوں گے۔ بول چال اور ملنے جلنے میں بے شک آپ جتنے بھی فرینک ہوں لیکن ایک تہذیب اور احترام کا رویہ بھی دکھانے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).