سعودیوں کی اس کرم فرمائی کے بدلے پاکستان کیا دے گا؟


ہم چونکہ ازلی بھوکے ہیں، کچھ روٹی کے اور کچھ دولت کے، اس لئے ہم ہر معاملے میں روپوں کو دیکھتے ہیں۔ غریب عوام کو پیٹ کی دوزخ نے کہیں کا نہیں چھوڑا تو امیروں کو ہوسِ زر نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ روپوں کا تذکرہ تو قصۂ پارینہ بن چکا، اب تو ڈالروں کا زمانہ ہے۔ اربوں کھربوں سے کم پر تو ہماری گاڑی رکتی ہی نہیں۔ چاہے ہمارے حکمران ملک سے باہر نکلیں یا کوئی بھٹک کر ہماری طرف آجائے، کشکول ہمارے گلے میں ہوتا ہے، صبح و شام اس پر کپڑا مار کر چمکاتے رہتے ہیں۔ اللہ کے نام پر دے دیں بابا۔ اللہ کے نام پر نہیں تو اپنے نام پر دے دیں، انسانیت کے نام پر بھی چلے گا، کچھ نہیں تو مفت دے دیں، مفت نہیں دینا تو کچھ خدمت کروا کر دے دیں، پر شرط یہ ہے کہ پہلے دینا ہے پھر کروانا ہے، مجھے نوٹ دکھا میرا موڈ بنے۔

بات کرنی تھی ایم بی ایس کے آمد کی، پر ایک اور بات یاد آگئی۔ ہمارے نان کرپٹ صاف ستھرے، اجلے بلکہ نکھرے وزیراعظم کبھی اقبال کے شیدائی تھے۔ باقی تمام ملک کے برعکس کے پی کے میں اپنی حکومت کے دوران اقبال ڈے پر عام تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ سیاست میں آنے سے پہلے ہی اقبال پر ہاتھ صاف کیا تھا۔ اخباروں میں فکر اقبال پر طویل مضامین لکھتے تھے۔ نہایت تاسف سے کہتے تھے ، افسوس میں نے شیکسپئر کو پڑھا لیکن اقبال سے محروم رہا۔ خان صاحب ویسے سچ بولتے ہیں، شیکسپئر کو پڑھا ضرور لیکن سمجھنے کی غلطی نہیں کی۔ اقبال کو بھی صرف پڑھا، سمجھا بس اتنا کہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو، نور سودم تہ شین دے۔ اقبال نے کہا تھا

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

اور بھی بہت شعر یاد آرہے ہیں لیکن جانے دیں، ڈالروں کی بارش کا مزہ شعروں سے کیا خراب کرنا! ویسے بھی فطرت شناس دل بے وقوف ہوتا ہے کہ لالہ و گل کے سکوت سے کلام کشید کرتا ہے۔ ڈالروں کی چھن چھن کانوں میں رس گھولتی ہے اور اس کا دیدار آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔

ایم بی ایس کتنے ارب ڈالر وارے گا، سب کو پتہ ہے۔ خوشامدی صحافی اخبار میں لکھ اور ٹی وی پر بول بول ہلکان ہورہے ہیں ، اربوں ڈالر لائے ہیں ایم بی ایس،۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کیوں لا رہے ہیں اور ہم کیا دے رہے ہیں بدلے میں؟ یہاں تو کوئی مفت میں ڈسپرین نہیں دیتا کجا کہ اربوں ڈالرز۔

ہم نرالے لوگ ہیں، چین نے سی پیک کا آغاز کیا تو ہر طرف چین کا طوطی بولنے لگا، اس پر بات ہی نہیں ہوئی کہ چین کو کیا ملنا ہے اس سے؟ سعودی پیسے لگانے لگے تو ہر طرف ان کی جے جے ہونے لگی ہے، کیا انہیں بھی اس سے کچھ ملے گا یا یہ سب ان کی جود و سخا کا مظہر ہے؟ سعودیوں کی اس کرم فرمائی کے بدلے پاکستان کیا دے گا؟ اس باب میں مکمل خاموشی! چین کیوں بے چین ہو رہا ہے، چینی سفیر نے کن خدشات کا اظہار کیا ہے؟ کسی کو کوئی فکر نہیں۔

ایران اور سعودی عرب کی چپقلش کھلا راز ہے، ایران کیا سوچ رہا ہے اور ہماری پالیسی کیا ہے اس معاملے میں؟ اس کا کوئی سر پیر نہیں۔ امریکہ چین اور ایران کے متعلق جو رائے رکھتا ہے اس حوالے سوچنے کو ہمیں فرصت نہیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ اس خطے میں بین الاقومی طاقتوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے، اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ ہم کس طرح ایک باوقار طریقے سے اپنے کارڈز کھیل سکتے ہیں؟ اس بارے پالیسی وضع کرنا اور منصوبہ بندی کرنا ہمارے نزدیک کار لاحاصل ہے۔ ہمیں بس ڈالروں سے عرض ہے، اس کی بھینی بھینی خوشبو ہمارے دل و دماغ کے لئے کافی ہے۔

ہمارے گاؤں میں لڑکے اکثر کھیلوں کے ٹورنامنٹس کرتے رہتے ہیں، اخراجات پورے کرنے اور کچھ موج مستی کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کو پھانس لاتے ہیں لیکن یقین کیجئے اتنا سلیقہ ان میں بھی ہوتا ہے کہ پیسے نکالنے کے چکر میں سرعام پاؤں نہیں پڑتے۔ ایم بی ایس کے آنے پر تو ہماری حکومت کچے پن کے انتہا کو پہنچ گئی۔ پیسہ ملنے سے اگر ہمارے حالات بہتر ہوتے تو کب کے ہو چکے ہوتے۔ مسئلہ پیسہ کا نہیں، مسئلہ ملک کو ایک درست سمت میں لگا کر آگے لے جانے کا ہے۔ پاکستان کوئی طفیلی ریاست نہیں، بیس کروڑ عوام کا مسکن ایک ایٹمی قوت ہے، ہمیں اپنی طاقت اور صلاحیت کا درست استعمال آنا چاہے اور بس۔

آخری بات یہ کہ ولی عہد صاحب پاکستان اٹھارہ گھنٹے گزار کر جا چکے پاکستان کا دورہ ان کے کئی ممالک کے دوروں کی ایک کڑی ہے۔ ان اٹھارہ گھنٹوں میں ہم جس طرح ولی عہد صاحب کے راستے میں بچھے بچھے جاتے تھے، وہ مدتوں یاد رہے گا۔ کشمیر کا نام اگر ولی عہد کی زبانِ مبارک سے کسی کو سنائی دیا ہو تو ازراہ کرم مجھے بھی بھجوا دے، میں نے رِنگ ٹون لگانی ہے۔ اگر کسی کو مشترکہ اعلامیہ پڑھتے ہوئے کشمیر کا نام دکھائے دے، تو لطفاً مجھے بھجوا دے، میں فریم کرا لوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).