پی ایس ایل: ’کیا کریں، یہ کرکٹ جو نہیں ہے‘


وسیم اکرم

وسیم اکرم پی ایس ایل کی ٹیم کراچی کنگز کی انتظامیہ میں شامل ہیں

سنہ 1952 سے سنہ 2017 تک پاکستان کرکٹ نے عروج و زوال کے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ کئی کپتان آئے اور گئے۔ ہر ایک نے اپنا کرکٹنگ کلچر متعارف کروایا۔

کچھ ایسے تھے کہ جب ڈریسنگ روم سے رخصت ہوئے تو اپنا کلچر بھی ساتھ ہی سمیٹ لے گئے اور کچھ ایسے بھی کپتان ہوئے کہ جن کا وضع کردہ کلچر ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی نہ کسی ’حیلے بہانے‘ سے ڈریسنگ روم اور قومی نفسیات میں یکساں طور پہ موجود رہا۔

مثلاً جب تک شاہد آفریدی ٹیم میں رہے، نوّے کی دہائی کا کلچر بھی کسی نہ کسی شکل میں ڈریسنگ روم میں موجود رہا۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی کنگز پر لاہور قلندرز کی فتح کے بعد کیا ہوا؟

سرفراز منہ کیوں چھپا رہے تھے؟

’مکی آرتھر صاحب! یہ پاکستان کا ڈریسنگ روم ہے‘

عموماً ہر ٹیم کی کرکٹنگ پرفارمنس کا تعلق بلاواسطہ طور پہ اس کے ٹیم کلچر سے ہوتا ہے۔ مگر پاکستانی کرکٹ پہ کئی ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جہاں یہ طے کرنا بھی دشوار تھا کہ ٹیم پہ جو کیفیت طاری ہے، کیوں ہے اور اسے کیا نام دیا جائے۔

دو سال پہلے جب پاکستان چیمپئینز ٹرافی جیتا تو دنیائے کرکٹ کی اکثریت کے دیدے کھلے کے کھلے رہ گئے کہ یا للعجب، ایسی چنگاری بھی اپنی خاکستر میں تھی۔ چونکہ پاکستان وہ آخری ٹیم تھی جو اس ٹائٹل کے لیے فیورٹ ہو سکتی تھی۔

اور اس جیت کی حیرت ایسی تھی کہ کچھ عرصہ تو خود جیتنے والوں کو بھی یقین نہ آ پایا کہ وہ کیا کر بیٹھے ہیں۔ اس کی دلیل ان خبروں سے بھی ملتی ہے جو جیت کے کچھ عرصہ بعد پاکستان کے ڈریسنگ روم سے آنے لگیں۔

یہی عماد وسیم تھے کہ جن کا برطانیہ میں ایک سکینڈل سامنے آیا۔ شاداب خان ٹوئٹر پہ اپنا دل اٹھائے پھرتے نظر آئے۔ نیوزی لینڈ کے دورے پہ سرفراز حسن علی سے الجھتے نظر آئے۔

پھر انھی غیر نصابی سرگرمیوں کے بیچوں بیچ اچانک ایشیا کپ آ گیا اور تمام پاکستانی سٹارز بہترین ’ہیر کٹس‘ کروا کر کھیلنے پہنچے لیکن نتیجہ چیمپئنز ٹرافی کے بالکل برعکس آیا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ ہر عام انسان کی طرح پلئیرز کو بھی اپنی ذاتی زندگی جینے کا بھرپور حق ہے۔ مگر ذاتی زندگی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بنیادی فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی نہایت ضروری ہے۔

سمجھ یہ نہیں آتی کہ سالہا سال کرکٹ کھیلنے والے یہ بنیادی نکتہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ یہ شرفا کا کھیل ہے۔ اس میں جذبات کے اظہار کی گنجائش تو ہے مگر یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا ٹیلنٹ کیوں نہ ہو، کتنا ہی گہرا جذبہ کیوں نہ ہو، کرکٹ سے بڑا نہیں ہو سکتا۔

سنیچر کی شب دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں جو رویہ لاہور اور کراچی کے ڈریسنگ رومز کے درمیان دیکھا گیا، وہ فقط بد تہذیبی نہیں تھی، سراسر کرکٹ کے لیے شرمندگی تھی۔ اور اس قضیے میں وسیم اکرم جیسے لیجنڈ بھی کسی نہ کسی طرح شامل رہے، یہ نہایت مایوس کن بات ہے۔

ہمیں اس سے بحث نہیں کہ شرارت شروع کہاں سے ہوئی۔ پہلے لاہور قلندرز کی طرف سے نعرے لگے یا کراچی کنگز کی طرف سے ناقابلِ ذکر اشارے ہوئے، ہمارا سوال یہ ہے کہ ایک کرکٹ میچ کے دوران ان حرکتوں کی گنجائش کیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس شکایات دونوں ڈریسنگ رومز کی جانب سے پہنچ چکی ہیں۔ لیکن ایک شکایت کرکٹ شائقین بھی درج کروانا چاہتے ہیں۔

حضور! یہ کھیل وہ کھیل ہے جس میں شفافیت اور ایمانداری کے معیارات اتنے بلند تھے کہ 18ویں صدی کے انگلستان میں جب کسی معاشرتی ناہمواری یا نا انصافی پہ تبصرہ کرنا ہوتا تو عموماً یہی کہا جاتا تھا، ’کیا کریں، یہ کرکٹ جو نہیں ہے۔`

حضور! پی ایس ایل کے پاکستان کرکٹ پہ بہت احسانات ہیں۔ اس نے بہت سا خام ٹیلنٹ گلی محلوں سے اٹھا کر پاکستانی ڈریسنگ روم تک پہنچایا ہے۔ مگر خام ٹیلنٹ کے ناپختہ اذہان کو پختگی فراہم کرنا بھی آپ کی ہی ذمہ داری ہے۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ پی ایس ایل کے بارے میں بھی کسی کو کہنا پڑ جائے، ’کیا کریں، یہ کرکٹ جو نہیں ہے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp