صلاحیت سماعت کی غیر موجودگی میں کائنات خاموش ہے؟


چار دن پہلے لاہور میں کچھ دوست بیٹھے تھے۔ ٹی وی پر ایک سماعت کی صلاحیت کا ایک ٹیسٹ چلایا۔ ٹیسٹ کے نتائج دلچسپ تھے۔ دو دوست 15 ہزار ہرٹز پر آواز سن رہے تھے اس سطح پر میرے اور شعیب سرور کے لیے صرف خاموشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ تقریبا 12 ہزار ہرٹز پر ہم اس قابل ہوتے تھے کہ آواز سن سکیں۔ ٹیسٹ بار بار چلایا گیا اور بار بار ایک ہی نتیجہ سامنے آیا۔ نتیجہ یہی تھا کہ میرے اور شعیب سرور کے لیے 12 ہزار ہرٹز سے زیادہ کی آواز وجود ہی نہیں رکھتی۔ یوں ہم اگر اپنی ان حسی تحدیدات کو سامنے رکھیں تو ایک حس کے محرک کم ہونے کے سبب ہماری پیرسیپشن کا دائرہ کم ہوتا چلا گیا ہے۔ یہی معاملہ ہماری قوت فیصلہ سے بھی براہ راست تعلق رکھتا ہے۔

عنوان مضمون میں جو سوال ہے اس پر حاشر ابن ارشاد نے توجہ مبذول کروائی کہ یہ سوال سب سے پہلے جارج برکلے نے اٹھایا بعد میں یہ سوال 1883 میں ایک میگزین میں نیم سائنسی حوالے سے شائع ہوا۔

جس دور میں یہ سوال اٹھا اس وقت نیورو کے حوالے سے جس قدر علم ہمارے پاس تھا اس سوال کی حیثیت نیم سائنسی ہی ہونا چاہیے تھی۔ لیکن آج معاملہ یکسر مختلف ہے۔ آج فیصلہ کن لہجہ اختیار کیے بغیر ہم بات ضرور کر سکتے ہیں۔ فیصلہ کن لہجے کے خلاف اس لیے ہوں کہ سائنس کے مختلف میدانوں میں سخت سوالات جن کا جواب تا حال ہمارے پاس نہیں، کافی زیادہ ہیں۔

جب بھی دو یا زیادہ ’اجسام‘ آپس میں ٹکرائیں تو مالیکیولز ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہیں اور ایک لہر کی سی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ ایک واسطے کی صورت یہ لہر اس وقت تک سفر کرتی رہتی ہے جب تک کہ ردعمل کی قوتیں حاوی نہ ہو جائیں۔ اس سطح پر ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان لہروں کو کیا نام دیا جانا چاہیے؟ میکانیاتی لہریں یا آواز کی لہریں؟ بالعموم ان لہروں کو جو سماعتی آلہ (کان) کے حدود میں آتی ہوں آواز کی لہریں ہی کہا جاتا ہے۔ کیا ایسی تمام لہروں کو جو فقط مالیکیولز کو ایک دوسرے کو دھکا دینے سے وجود میں آتی ہیں کو آواز کی لہریں کہنا مناسب ہو گا؟

آواز کیا ہے؟ میکیانیاتی لہریں جب ہمارے کان کے پردے سے ٹکراتی ہے تو پردہ ہلتا ہے یعنی ایک میکانیاتی حرکت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حرکت آگے جا کر انسانی جسم کی سب سے چھوٹی تین ہڈیوں میں اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔ تینوں ہڈیاں ایک ایمپلی فائر کے طور پر کام کرتے ہوئے یہ حرکت ایک چھوٹے پردے تک لے جاتی ہیں۔ چھوٹے پردے سے یہ حرکت ایک مائع قسم کے مواد میں جا پہنچتی ہیں جہاں جا کر اس مائع میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے بعد یہی میکانیاتی حرکت ایک خاص قسم کے بال جیسے خلیوں میں حرکت پیدا کرتی ہے جہاں سے ایکشن پوٹینشل پیدا ہوتا ہے اور یہ حرکت ایک مخصوص اعصابی نظام ویسٹیبولر کوکلئیر نرو کے ذریعے دماغ کے اس حصے کی جانب سفر شروع کرتی ہے جو اس کو آواز سے متعلقہ نظام تک لے جاتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ دماغ سے متعلقہ خانے تک پہنچنے سے پہلے کیا وہ ’آواز‘ تھی یا محض میکانیاتی لہریں تھیں؟

ہمیں علم ہے کہ کہ دماغ ان میکانیاتی لہروں کو ’آواز‘ میں منتقل کرتا ہے اور دماغ کا یہ عمل انتہائی پیچیدہ ہے۔ انہی پیچیدگیوں کے سبب دماغ کو خارجی کائنات سے چاہے وہ اربوں نوری سال کا حجم ہی کیوں نہ رکھتی ہو سے زیادہ پیچیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ محبوب کی آواز ہو یا کسی پرندے کے چہچہانے کی آواز۔ پس پردہ جس انداز سے اس کا آغاز ہوتا ہے یعنی میکانیاتی حرکت سے حیرت سے دوچار کر دیتا ہے۔ میکانیاتی لہروں کا دماغ تک پہنچنے کا سفر بذات خود انتہائی حیران کن ہے۔

ذرا تصور کیجئے کہ آواز کے ایک ہی وقت میں بیسیوں نمونے بیک وقت سفر کرتے ہیں (پرندے کی چہچہاہٹ، موٹر کی آواز، مخاطب کی آواز، رکشے کی آواز، ٹی وی سے آنے والی میکانیاتی لہریں ) پھر یہ میکانیاتی لہریں جب کان کے پردے اور تین ہڈیوں اور مائع سے ہوتے ہوئے بال خلیوں تک کا سفر اختیار کرتی ہیں تو اس سفر میں اپنے اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھتی ہیں۔ اس سفر میں البتہ کوئی ’غیر معمولی نمونہ‘ دماغ تک پہنچنے کے لیے ایک اور روٹ اختیار کرتا ہے جس کی ایک ارتقائی وضاحت ہے۔

ہمارا خیال تجربوں کے مجموعہ کا حاصل ہے، تجربہ حسیات پر انحصار کرتا ہے اور حسیات، سپیکٹرم میں بہت محدود سپیکٹرم کو پکڑ سکتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی سپیکٹرم کی بھی حد ہے۔

ذرا تصور کیجئے کہ میکانیاتی لہروں کے آگے ایک آلہ (کان و ذہن) اس کو ایک خاص شکل دے دیتے ہیں۔ اگر کوئی مختلف آلہ ہو تو شکل کس قدر مختلف ہو جائے۔ ہماری سوچ و خیال کس قدر مختلف ہو جائے۔ اگر آلہ یہی رہنا دیا جائے اور میکانیاتی لہروں کوکو غائب کر دیا جائے؟ اگر میکانیاتی لہریں موجود ہوں لیکن آلے کی کارکردگی میں فرق آ جائے اور محدود سپیکٹرم مزید محدود ہو جائے؟ اگر میکانیاتی لہروں کے بجائے کسی اور میکنیزم کو اٹھا کر اس کے مطابق کوئی اور آلہ نصب کر دیا جائے َ؟

یہ سب کچھ انتہائی خوفناک ہے۔ یہ سب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم مضحکہ خیز حد تک محدود ہوتے ہوئے مضحکہ خیز حد تک باتوں میں ’فیصلہ کن‘ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے عجز کو علم کی منزل کہا جاتا ہے۔ عجز کے سوا علم کا بہترین حاصل اور کیا ہو سکتا ہے۔ کائنات خاموش ہے۔ مختلف انواع میں ایک مخصوص حیاتیاتی آلہ میکانیاتی لہروں کا آواز کا روپ دے رہا ہے۔ مختلف انواع کی مختلف حدود ہیں لیکن حدود ہیں۔ حیاتیاتی آلہ کی غیر موجودگی میں لہریں تو ہیں لیکن یہ لہریں کسی پری چہرہ کا قہقہہ ہے یا شرماتے ہاتھوں کا بجتا کنگن ہے۔ والد کی شفیق آواز ہے یا ماں کی مشفق لوری۔ کسی بچے کی کلکاری ہے یا ہوا سے تالیا ں بجاتے شیشم کے پتے ہیں۔ کسے معلوم؟ خاموشی کا گونجنا بھی ترکیب کے سوا کیا ہے۔ خاموشی تو خاموشی ہوتی ہے۔ ششش۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik