پلوامہ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستانی خواتین کی مہم: نفرت کے خلاف چیلنج


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں حملے کے بعد پاکستانی خواتین کے ایک گروپ نے سوشل میڈیا پر متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک آن لائن مہم کا آغاز کیا ہے۔

’اینٹی ہیٹ چیلنج‘ نامی ہیش ٹیگ پاکستانی صحافی اور امن کے لیے کام کرنی والی سماجی کارکن سحر مرزا نے شروع کیا۔

انھوں نے فیس بک پر ایک تصویر لگائی جس میں ایک بینر پر لکھا تھا ‘میں پاکستانی ہوں اور میں پلوامہ میں دہشت گردی کے حملے کی مذمت کرتی ہوں۔’

امن کی آشا کے نام سے فیس بک پر موجود گروپ میں اپنی پوسٹ پر انھوں نے لکھا ‘ہمیں گہرا صدمہ ہے کشمیر میں ہونے والے افسوسناک حملے پر جس نے معصوم لوگوں کی جان لے لی۔‘

سحر کا کہنا ہے اس قسم کی مشکل صورتحال پر پاکستان اور انڈیا کو مزید ایسی آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے جو دہشت گردی اور جنگ کے خلاف بات کریں۔

#AntiHateChallenge میں انھوں نے پاکستانیوں کو دعوت دی کہ وہ بھی پلوامہ کے حملے کی مذمت کریں اور ہیش ٹیگ NotoWar #WeStandWithIndia #CondemnPulwamaAttack

کے ذریعے یکجہتی کا اظہار کریں۔

بی بی سی سے گفتگو میں سحر نے کہا کہ یہ جنگ جیسی صورتحال ان کے لیے پریشان کن ہے۔

‘ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انڈیا کے لوگ بہت غصے میں تھے، وہ تکلیف میں تھے اور سوشل میڈیا پر ہر قسم کا ردعمل سامنے آ رہا تھا۔’

یہ دیکھتے ہوئے سحر اور ان کی دوستوں نے سوچا کہ پاکستان کی جانب سے خاموشی کو توڑنا ضروری ہے۔

‘میں یقین رکھتی ہوں کہ غصے، غم اور تکلیف میں ہمیں مرہم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ محبت اور گرمجوشی سے ہی ہو سکتا ہے۔’

اپنی فیس بک پوسٹ میں انھوں نے جنگ سے نفرت کا اظہار کرنے کے لیے ساحر لدھیانوی کو حوالہ دیا۔

‘خون چاہے ہمارا ہے یا ان کا ہے۔ یہ انسانوں کا خون ہے۔ چاہے جنگ مشرق سے ہوتی ہے یا مغرب سے یہ دنیا کے امن کا قتل ہے۔‘

چاہے گھروں یا پھر سرحد پر بم پھٹیں روح کا تقدس زخمی ہوتا ہے۔

جنگ خود ہی ایک مسئلہ ہے۔ جنگ مسئلوں کا حل کیسے نکالے گی؟

آج آگ اور خون کا دریا بہے گا اور کل بھوک اور افلاس ہو گی۔

ان کی پوسٹ کے بعد جلد ہی ان کی دیگر دوستیں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئیں۔

ان میں ایک لاہور سے تعلق رکھنے والی وکیل شمائلہ خان تھیں۔

شمائلہ کہتی ہیں کہ ‘ہم نے محسوس کیا کہ حملے کے بارے میں جو بحث ہو رہی ہے اس میں امن کے بارے میں بات کی کمی ہے۔ اور دونوں جانب قومیت اور حب الوطنی کی بات ہو رہی ہے۔ ایسے میں ہم اینٹی ہیٹ چیلنج کے ہیش ٹیگ کے ذریعے امن کا بیانیہ پیش کرنا چاہ رہے تھے۔’

اگرچہ اس مہم میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد درجن بھر ہی ہے لیکن اس پر ردعمل بہت زیادہ آرہا ہے۔

بہت سے حلقوں کی جانب سے اس اقدام کی تعریف کی جا رہی ہے۔

امن کی آشا کے فیس بک پیج کی ایڈیٹر بینا سرور نے اس کوشش کی تعریف کی۔

اپنی ٹویٹ میں انھوں نے لکھا ‘زبردست پاکستان کی ینگ خواتین کی جانب سے نفرت کے خلاف چیلنج کی شروعات اور ان کی پروفائل پکچر پر یہ سائن کہ میں پاکستانی ہوں اور پلوامہ دہشت گرد حملے کی مذمت کرتی ۔’#NoToWar ہوں ۔

کچھ انڈین شہریوں کی جانب سے اس جراتمندانہ اقدام قرار دیا گیا۔

وینائیک پدمادیو نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سحر مرزا کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ‘میرا انسانیت پر ایمان بحال ہو گیا ہے۔’

#AntiHateChallenge اس بہادر لڑکی کو سلام پلوامہ سانحے پر’ راجیو سنگھ نے لکھا بہادر لڑکی سحر کو سلام اس نے وہ قدم اٹھایا جو پاکستان میں کسی نے نہیں اٹھایا۔

راجیو سنگھ نے انہیں امید کی کرن قرار دیا اور بہادر لڑکی کہا۔

سدھارتا داس نے لکھا یہ شاید پاکستان میں موجود چھوٹا سا طبقہ ہے۔ لیکن پاکستان میں انسانیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ سحر مرزا کو سلام۔ تمھارے ہم وطن جو انڈین لاشوں کی گنتی پر مذاق کر رہے ہیں وہ تم پر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ لیکن بہادر رہنا، خدا تمھارا نگہبان۔’

مگر سحر کہتی ہیں کہ اس مہم پر حمایت کے ساتھ ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔ انھیں آن لائن تنقید کے علاوہ برے الفاظ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ٹرول کیا گیا، کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ تصاویر جعلی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ امن کے حامیوں کو دونوں جاب سے مشکل وقت دیکھنا پڑتا ہے اس لیے یہ اہم ہے کہ بولا جائے تاکہ آپ کی آواز سنی جائے۔’

وہ لوگ جو پلوامہ حملے کی حمایت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے کئی دہائیوں سے جاری جارحیت کا نتیجہ ہے۔

برہان گیلانی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا ‘اگر پاکستانی حکام اپنے ہمسائے میں موجود خونریز جنگ سے کچھ نہیں سیکھ سکتے اور اسے اس بارے میں نہیں معلوم کہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں تو پھر انھیں اس قسم کی احساسات سے عاری مذمت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اپنے ذہن میں پہ زور ڈالیں امن تب ہی آئے گا جب قبضہ ختم ہو گا۔’

شمائلہ کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پیچیدہ صورتحال میں ایک واحد بینر سے کچھ نہیں ہو سکتا۔

‘ہم خوش ہیں کہ ہم نے ایک ایسی بحث شروع کی ہے جو پاکستانیوں کی جانب سے بہترین جواب ہو سکتا تھا۔ یہ کہ ہم کیسے امن کو بالاتر رکھ کر پراثر انداز میں اپنی پوزیشن بیان کر سکتے ہیں مگر کشمیریوں کے جذبات اور احساسات کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے۔

ان کا خیال ہے کہ ہمیں بولتے رہنا چاہیے تاکہ ہم شہری اس بحث کو دوبارہ سے شروع کر سکیں۔ دوسری صورت میں دونوں جانب کی حکومتیں اپنے قومی بیانیے کے گرد ہی گھوم رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp