زلمے خلیل زاد بھی تو حیران ہوئے ہوں گے


یہ ذِکر ہے ستمبر 1996 کا۔ جب 26 اور 27 کی درمیانی شب طالبان نے افغان دارالخلافہ کابل پر قبضہ کیا۔ اوربعد میں اپنی حکومت اماراتِ اسلامی افغانستان کے قیام کا اعلان کیا۔ میں ان دنوں روزنامہ دی نیوز کے ساتھ بحیثیت رپورٹر منسلک تھا۔ اور ایک غیر ملکی ٹی وی نیوز ایجنسی کے لیے بھی کام کرتا تھا۔ نیوز ایجنسی کی اسائنمنٹ پر میں ٹی وی ٹیم کے ہمراہ 27 ستمبر کی صبح پشاور سے کابل کے لیے روانہ ہوا۔ اور تقریبا دوپہر کے بعد ہم وہاں پہنچے۔ باقی کا دن بہت مصروف گزرا۔ ہم نے آریانا چوک میں لٹکی ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان کے بھائی کی نعشوں کی فلمبندی کے علاوہ دوسری کئی ویڈیوز بنائیں اور انٹرویوز کیے۔

اگلی صبح اطلاع ملی کہ وزارت ِخارجہ میں ایک اہم پریس کانفرنس ہونی ہے۔ ہم وزارتِ خارجہ کی عمارت پہنچ گئے۔ جہاں ایک درجن سے زیادہ دوسرے غیر ملکی صحافی بھی موجود تھے۔ جو ایک ہال میں لگی مستطیل شکل کی بڑی میز کے گرد کرسیوں پر براجمان تھے۔ ہم بھی ان میں شامل ہو گئے۔ تقریبا دس پندرہ منٹ بعد ہال کے پچھلے دروازہ سے کچھ لوگ نمودار ہوئے۔ سب سے آگے ہلکے نیلے یا سلیٹی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس سر پر کالا پٹکا باندھے ایک دُبلا پتلا نوجوان تھا۔ اس کی آنکھیں بے خوابی کا شکار لگ رہی تھیں۔ سیاہ داڑھی کے بال بے ترتیب تھے۔ اور کپڑے بھی بغیر استری کے تھے۔ دیکھنے میں وہ ایک عام سا شخص لگ رہا تھا۔ اور اسی وضع قطع سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس کا تعلق طالبان سے ہے۔

شیر محمد ستنکزئی

اس کے ہمراہ تین چار دوسرے لوگ بھی تھے۔ جو افغان وزارتِ خارجہ کے اہلکارتھے۔ اور یہ ہمیں ایسے معلوم ہوا کہ ان سب کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور سر پر سفید ٹوپیاں تھیں۔ نوجوان نے بہ آوازِ بلند سلام کیا اور میز کی چوڑائی کی طرف پڑی درمیانی کرسی میں بیٹھ گیا۔ باقی لوگ اس کے گرد کرسیوں پر قابض ہو گئے۔

پریس کانفرنس شروع ہوئی۔ اور دبلے پتلے طالب نے اپنا تعارف شیر محمد ستنکزئی کے طور پر کروایا۔ وہ اماراتِ اسلامی افغانستان کا ڈپٹی وزیرِ خارجہ تھا۔ وہ پشتو زبان میں گفتگو کر رہا تھا۔ اور حسبِ روایت دو تین فقرے بولنے کے بعد خاموش ہو جاتا اور افغان وزارتِ خارجہ کا ایک اہلکاراس کی بات کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرتا۔ غیر ملکی صحافی چونکہ پشتو نہیں سمجھتے تھے اس لیے ستنکزئی کی گفتگو کے دوران وہ صرف اسے گھورتے رہتے۔ اور نوٹس اس وقت لیتے جب انگریزی ترجمہ سنایا جاتا۔ میں پشتو جاننے کی وجہ سے ستنکزئی کے الفاظ کو ہی نوٹ کر رہا تھا۔ یہ سلسلہ تقریبا دس منٹ تک جاری رہا۔

پریس کانفرنس کے عین وسط میں وزارتِ خارجہ کا اہلکار ڈپٹی وزیر خارجہ کی کہی ہوئی بات کا ترجمہ کر چکا تو ستنکزئی نے اسے پشتو میں کہا کہ اب آپ خاموش رہیں گے۔ یعنی مزید ترجمانی نہیں کرنی۔ اوراس کے بعد وہ ہوا جس کی وہاں موجود صحافیوں میں سے کوئی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اور وہ یہ کہ شیر محمد ستنکزئی نے انگریزی زبان میں بولنا شروع کر دیا۔ اور بولتا ہی چلا گیا۔

ایک طالب کی زبان سے انگریزی سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ مجھے اس کا انگریزی میں بولا ہوا پہلا فقرہ تو یاد نہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ اس کے منہ سے انگریزی سنتے ہی میں ہکا بکا رہ گیا۔ اور شاید چند سیکنڈ تک تونوٹس لینا بھی بھول گیا۔

میں گذشتہ تین چار سال سے افغان طالبان کو کور کر رہا تھا۔ اس سلسلہ میں کئی مرتبہ افغانستان کے مختلف صوبوں اور شہروں کو جانے کا موقع ملا۔ اور اس دوران بیسیوں طالبان رہنماوٗں، کمانڈروں اور جنگجووں سے ملاقاتیں بھی کر چکا تھا۔ ان کے ساتھ لمبے سفر بھی کیے اور ان سے بیٹکھیں بھی ہوئیں۔ لیکن میں نے کبھی کسی طالب کو انگریزی بولتے دیکھا نہ سنا تھا۔

میں کچھ ساعتوں تک آنکھیں پھاڑے شیر محمد ستنکزئی کو دیکھتا رہا۔ اور صرف میں ہی حیرت کا شکار نہیں تھا۔ بلکہ میرے ارد گرد موجود دوسرے صحافیوں کی بھی کچھ میری ہی طرح کی حالت تھی۔

ہم صحافیوں کی حیرانگی کی وجہ بہت واضح تھی۔ اور وہ یہ کہ طالبان دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جہاں عام طور پر انگریزی زبان نہیں پڑھائی جاتی۔ اور 90 کی دہائی تک تو بالکل بھی نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ اسی لیے طالبان انگریزی سے نابلد ہوتے ہیں۔

تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ شیر محمد ستنکزئی روایتی طالب ہیں نہ روایتی دینی مدرسے سے تعلیم یافتہ ہیں۔ بلکہ انہوں نے افغانستان کے سیکولر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی ہے۔

اسی پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے شستہ انگریزی میں بتایا کہ وہ ملٹری اکیڈمی میں تعلیم و تربیت حاصل کر چکے تھے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس ملک کی ملٹری اکیڈمی سے منسلک رہے تھے۔ شاید ایسا انہوں نے قصداٌ نہیں بتایا۔ ملٹری ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد آپ جہادی رہنما پروفیسر عبدالرب رسول سیاف کے گروہ سے وابستہ رہے تھے۔ جہادی زندگی کے دوران بھی انگریزی زبان پر عبور نے انہیں جہادی حلقوں میں نمایاں مقام دلایا۔

شیر محمد ستنکزئی نے باقی ماندہ پریس کانفرنس انگریزی زبان میں کی۔ اور غیر ملکی صحافیوں کے سوالوں کے جواب بھی انگریزی میں دیے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی انگریزی افغان وزارتِ خارجہ کے اہلکار سے بدرجہا بہتر تھی۔

یہ وہی شیر محمد ستنکزئی ہیں جو آج کل امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں آخرالذّکر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے انچارج بھی ہیں۔

لیکن اب شیر محمد ستنکزئی دبلے پتلے جوان نہیں رہے۔ نہ ہی ان کی داڑھی سیاہ ہے۔ اب وہ ایک باعمر سفید ریش ہیں۔ اور کپڑے بھی اچھے پہنتے ہیں۔ ٹی وی کی سکرین اور اخبارات میں ان کی تصاویر دیکھ کر ستمبر 1996 کی وہ صبح یاد آگئی جب ہم نے افغان طالبان کے ڈپٹی وزیرِ خارجہ کو پشتو سے انگریزی کا سفر کرتے دیکھاتھا۔

شاید امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد بھی افغان طالبان کے نمائندہ کے منہ سے اچھی اور معیاری انگریزی سن کرچند لمحوں کے لیے میرے ہی جیسی حیرت کا شکار ضرور ہوئے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).