حسین شہید سہروردی کا بیٹا: راشد سہروردی سے رابرٹ ایشبے تک


آج کا ہمارا موضوع خود تنقیدی کے عمل سے گزرنا ہے۔ گو کہ یہ تنقید ہم نے خود پر نہیں کی، بلکہ ایک قابل باپ کے قابل بیٹے نے ہم پر کی ہے۔ نام تو ان کا راشد تھا لیکن بعدازاں ان کا نام رابرٹ ہو گیا۔ آئیے پہلے راشد اور رابرٹ کے مکمل تعارف سے قبل ہمارے ایک شایع ہونے والے بلاگ کے جواب میں راشد سہروردی کے تنقیدی بلاگ کا جائزہ لیتے ہیں۔

حسین شہید سہروردی کے بیٹے نے اپنے والد کے بارے لکھے گئے ہمارے ایک بلاگ کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد اس کا جواب لکھا جو اب آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

“میں نے اپنے والد کے بارے میں اختر بلوچ کا مضمون بہت دلچسپی سے پڑھا جس کا عنوان تھا، “حسین شہید سہروردی سے انتقام‘‘۔واضح طور پر اختر بلوچ نے یہ مضمون نیک نیتی سے لکھا، یقیناً وہ میرے والد کے مداح ہیں۔ انہوں نے بہت ہی موزوں عنوان منتخب کیا ہے جس کو پڑھ کر پاکستان کے نامور وکیل اے کے بروہی کی بات یاد آتی ہے جو انھوں نے ڈھاکہ میں 60 کی دہائی کے وسط میں ایک تقریر کے دوران کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے 16 برس میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کا یہی مقصد رہا کہ سہروردی صاحب کو کسی طور بھی اقتدار میں نہ آنے دیا جائے۔‘‘

تاہم بلوچ صاحب کے مضموں میں کئی جگہ پر حقائق کی غلطیاں اور غلط تصورات پائے گئے۔ مسٹر اور مسز ایس این بیکر کے ساتھ ایوب خان کی بڑی تصویر میں نظر آنے والے دوسرے صاحب میرے والد نہیں۔ میں دوبارہ یہ واضح کرتا ہوں کہ اس تصویر میں میرے والد موجود نہیں ہیں۔ (یقیناً ان کا یہ موقف درست ہے لیکن شاید غلطی سے ہمارے بلاگ پر یہ تصویر کسی صاحب نے خود سے ڈھونڈ کر لگا دی)۔ اسی طرح آفتاب احمد کی بھتیجی بیگم سلمیٰ احمد کا یہ کہنا درست نہیں،( اگر انھوں نے کہا ہے تو)، کہ اسکندر مرزا کے صدر بننے سے پہلے میرے والد وزیراعظم تھے۔ (یہ بات بیگم سلمیٰ احمد نے اپنی خود نوشت میں واضح طور پر لکھی ہے- الف بلوچ

بلوچ صاحب کتاب ’’پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم‘ٗ سے حوالہ دیتے ہیں اور ایک اہم جملہ جو میں جانتا ہوں کہ درست نہیں وہ یہ ہے کہ ’’تاہم سہروردی صاحب جب تک وزیراعظم ہائوس میں رہے انھوں نے ڈاکٹر کی ہدایت پر شراب سے اجتناب کیا۔‘‘ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میرے والد نے شراب نوشی سے ’ڈاکٹر کے کہنےپر‘ اجتناب نہیں کیا۔ انہیں شراب کا ذائقہ ہی پسند نہیں تھا۔ شاید کبھی شیمپئن کی ایک آدھ چسکی لی ہو، وہ بھی بقول شخصے دکھانے کے لیے۔ 1963 میں مئی سے لے کر نومبر تک جب وہ میرے ساتھ لندن میں مقیم تھے۔ ۔ اسی دوران مجھے پاکستانی سیاست کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلا۔۔ ڈاکٹروں نے میرے والد کو شام کو دوا کے طور پر تھوڑی برینڈی پینے کے لیے کہا۔ یہ انجائنا کا درد کم کرنے کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔ میں آپ کو بتائوں کہ چھ سالہ بچے کو کسٹر آئل پلانا آسان اور انھیں برینڈی پلانا مشکل تھا۔ نہ تو وہ شراب پیتے تھے اور نہ ہی انھوں نے سگریٹ نوشی کی۔ انھوں نے مجھے اپنے سامنے سگریٹ نوشی کی اجازت دے رکھی تھی۔ کبھی کبھی وہ میرے پیکٹ سے سگریٹ بھی نکال لیتے لیکن جب میں ان کے لیے سگریٹ سلگا چکتاتو وہ کش اندر لینے کے بجائے اسے بجھا دیتے اور سگریٹ مجھے دوبارہ سلگانی پڑتی۔ دو کش لگانے کے بعد سگریٹ ایش ٹرے میں پہنچ جاتی۔ مجھے قارئین کو یہ باور کروانے دیجیے کہ ان کا شراب نوشی سے اجتناب صحت یا مذہب کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ انھیں اس کا ذائقہ پسند نہیں تھا۔ سگریٹ نوشی کے حوالے سے وہ بہت محتاط تھے۔

جہاں تک ان کے رقص کرنے کا تعلق ہے، جس کا ذکربھی کتاب میں کیا گیا ہے تو اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات بشمول سیاست اور وکالت کی وجہ سے سیاسی جلسوں یا اجتماعات سے خطاب کرنے کے باوجود جب بھی موقع ملتا وہ پیلس ہوٹل میں رات ایک بجے کے بعد پہنچ کر رقص کرتے جو ورزش بھی تھی اور تفریح بھی تھی۔ مختلف راتوں کو کئی خواتین ان کی شریک رقص بنتیں اور ناہید اسکندر مرزا صدر کے مصروف شیڈول کے سبب مشکل سے ہی ان خواتین میں شامل ہوتیں۔ ان دونوں (ناہید اسکندر اور حسین شہید سہروردی) کے تعلقات اچھے تھے جو اس لحاظ سے حیرت انگیز ہے کہ ان کے شوہر نے غیرآئینی طور پر سہروردی سے بطور وزیراعظم مستعفی ہونے کا اس وقت مطالبہ کیا تھا جب یہ واضح ہوگیا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی۔ کئی برس بعد انہوں(ناہید) نے مجھے ہنستے ہوئے بتایا کہ کیسے حسین شہید سہرودی نے مختلف تقاریب میں انہیں پیشکش کی تھی کہ وہ ان کے گروپ میں شامل ہو جائیں۔ یہ پیشکش کچھ ان الفاظ میں تھی، ’’ڈارلنگ، تم ہمارے گروپ میں شامل کیوں نہیں ہو جاتیں۔‘‘ جواب میں وہ کہتیں، ’’شہید میرے خیال میں تمہیں مجھے ڈارلنگ نہیں کہنا چاہیے۔ میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں اور پھر صدر پاکستان کی اہلیہ بھی ہوں۔‘‘ وہ جواب میں کہتے، ’’اوہ سوئیٹ ہارٹ میں بہت شرمندہ ہوں، لیکن تم ہمارے ساتھ شامل ہو جائو۔‘‘ ناہید ان کی بات مان لیتی تھیں۔

اختر بلوچ کے بلاگ میں ایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ میرے والد نے ملک کے معاملات سے مایوس ہو کر زندگی کے آخری ایام جلا وطنی میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ درست نہیں ہے۔ جنوری 1963 میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد علاج کی غرض سےوہ بیرون ملک چلے گئے تھے۔ بالآخر نومبر میں بیروت میں ڈاکٹروں نے انہیں مکمل طور پر صحت یاب قرار دے دیا جس کے بعد انھیں دسمبر میں وطن واپسی کے لیے گرین سگنل مل گیا۔

1962 میں کراچی سنٹرل جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے این ڈی ایف (نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ) کی بنیاد رکھی۔ نورالامین اور مولانا بھاشانی سمیت تمام اپوزیشن رہنما ان کی چھتر چھائوں میں کام کرنے پر متفق تھے۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری شیخ مجیب الرحمان مئی میں میرے لندن والے گھر میں ان سے ملنے آئے۔ میں اس وقت کمرے میں موجود تھا جب انھوں نے شیخ مجیب سے کہا کہ وہ فیصلہ کریں گے کہ کیا اسی برس کے آخر میں ان کی وطن واپسی کے بعد سیاسی جماعتیں فعال کی جائیں۔ بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ اسی مہینے میں میں انھیں لندن کے رٹز کارلٹن ہوٹل لے کر گیا جہاں انھوں نے ایوب کے ایلچی جنرل شیخ سے ملاقات کی، جنھوں نے انھیں نائب صدر کے عہدے کی پیشکش کی۔ انھوں نے جواباً کہا کہ اگر یہی پیشکش 1958 یا 1959 میں کی جاتی تو شاید وہ اس پر غور کرتے کیو ں کہ اس وقت تک اس دلدل سے بچنے کا موقع تھا جو ملک کو تباہی کی جانب دھکیل رہی تھی لیکن 1963 تک بہت ساری چیزیں گرفت سے باہر ہو چکی تھیں۔

میں اور بھی بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں، گاندھی کے ساتھ گزرا ان کا وقت اورگاندھی کے قتل کے بعد گوڈسے نے انھیں قتل اس لیے نہیں کیا کہ وہ یہ سمجھا میرے والد نابینا ہیں،انھوں نے کیسےخواجہ ناظم الدین کو کابینہ کے اجلاس میں ان کی نواسی کا ربڑ کا کھلونا مینڈک دبا دبا کر مشتعل کر دیا تھا، بیروت میں ان کی موت پر میرے خیالات وغیرہ وغیرہ۔ میں یہ سب لکھنا چاہتا تھا لیکن غالباً الفاظ کی گنتی میرے آڑے آرہی ہے۔ ان بلاگز کی طوالت ایک خاص حد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیئے۔ لہٰذا میں یہ بلاگ لکھنے پر اختر بلوچ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، اگرچہ اس میں بعض پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا گیا تاہم یہ میرے والد سے محبت اور احترام میں لکھا گیا ہے۔ اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔”

راشد سہروردی

آپ کے لیے ہمارا عنوان کہ حسین شہید کا بیٹا راشد سے رابرٹ تک یقیناً چونکانے کا سبب بنا ہوگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنا نام راشد سے رابرٹ ایشبے رکھ لیا تھا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں ہمیں اس کا علم نہیں۔ ہم نے دو بار بذریعہ ای میل ان سے رابطہ کر کے حسین شہید سہروردی کے بارے میں مزید معلومات کی درخواست کی تھی لیکن ان کا جواب بہت محتاط تھا بلکہ تقریباً نفی میں ہی تھا۔

راشد سہروردی حسین شہید سہروردی کے اکلوتے بیٹے تھے۔ وہ لندن میں رہتے تھے۔ پیشے کے حوالےسے اداکار تھے ، بنیادی طور پر کلاسک کردار کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔وہ پانچ برس رائل شکسپیئر کمپنی کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ قائد اعظم پر بننے والی فلم جناح میں انھوں نے جواہر لال نہرو کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں مرکزی کردار کرسٹوفر لی نے ادا کیا۔ راشد سہروردی کا انتقال 5 فروری 2019 کو لندن میں ہوا ۔ ان کے سینے میں کئی راز تھے لیکن شاید انھیں شایع کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).