ہم سب پر تحریر کو پرکھنے کا طریقہ کار کیا ہے؟


”ہم سب“ کی ٹیم میں مختلف الخیال لوگ موجود ہیں۔ ایک شخص ایک نظریاتی انتہا پر ہے تو دوسرا اس کے بالکل مخالف سمت کھڑا ہو سکتا ہے اور چند درمیان میں۔ لیکن ادارتی ٹیم میں صرف دو افراد ہیں جو مضامین شائع کرتے ہیں۔ ٹیم کے بقیہ افراد کی رائے اہمیت رکھتی ہے اور نظرانداز نہیں کی جاتی۔ لیکن روزمرہ کے معاملات میں ہم دو لوگ ہی فیصلے کرتے ہیں۔

وجاہت مسعود کا ادارتی تجربہ مجھ سے معمولی سا زیادہ ہے۔ یہی کوئی پندرہ بیس برس زیادہ۔ ان کا علم بھی ایسے ہی سے معمولی فرق سے زیادہ ہو گا۔ یہی کوئی دس بیس گنا زیادہ۔ اس لئے ہم دونوں کا مضمون پرکھنے کا انداز مختلف ہے۔

میں ان چار نکات کی بنیاد پر مضمون کی اہمیت، پبلشنگ پرائرٹی اور اس کی کیٹیگری کا تعین کرتا ہوں۔ 1۔ عام ریڈر اسے کیسے پڑھے گا۔ 2۔ مضمون کتنے اہم معاملے پر لکھا گیا ہے۔ 3۔ سائٹ کی اوور آل صحت پر اس کا کیا اثر ہو گا۔ 4۔ مصنف کی اوور آل ریڈر شپ اور مقبولیت کتنی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کئی مصنف ہم مدیران کی سمجھ سے بالکل بالاتر ہوتے ہیں لیکن ان کی تحریر پڑھی جاتی ہے اور ایسی صورت میں ہم اپنی رائے پر پڑھنے والے کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔

وجاہت مسعود مضمون کو تکنیکی بنیادوں پر دیکھنے کے قائل ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ دلائل کیا ہیں، موضوع کیا ہے، مصنف کی تحریر میں کتنا دم ہے، زبان کیسی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پہلے معاملات اچھے ہوں تو وہ کمزور زبان والے مضمون کو بھی نہایت محنت سے ری رائٹ کرنے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ میں ان کے مقابلے میں کاہل ہوں اور ری رائٹ کرنے سے عموماً انکاری ہوتا ہوں۔

ایک اہم بات بیان کرتا چلوں۔ ”ہم سب“ ہر موصول ہونے والے مضمون کو شائع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہت کم موضوعات ہیں جن پر مختلف وجوہات کے باعث مضمون شائع نہیں کیا جاتا۔ اگر کمپوزنگ کے مسائل ہوں، یا گرائمر زیادہ بگڑی ہوئی ہو اور مضمون طویل ہو، تو پھر مضمون شائع نہیں کیا جاتا۔ اردو کے مراکز سے دور رہنے والے وہ افراد جن کی مادری یا روزمرہ کی زبان اردو نہیں ہے، ان کے مضمون کو ٹھیک کر کے شائع کرنے میں ہم اچھی بھلی محنت کرنے سے نہیں کتراتے۔ لیکن خراب زبان والا مضمون طویل ہو تو ہم ایمیل کرتے ہیں کہ اسے مختصر کر کے دوبارہ بھیجیں۔

جیسے ہی کوئی مصنف ”ہم سب“ کو مضمون بھیجتا ہے، تو سسٹم اسے خود کار طریقے سے جوابی ایمیل بھیجتا ہے۔ ہمیں ایڈٹ کرتے وقت مضمون میں کوئی مسئلہ دکھائی دے تو ہم ایمیل کے ذریعے ہی رابطہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لئے مضمون بھیجنے کے بعد اپنی ایمیل کا انباکس اور سپیم فولڈر ضرور دیکھ لیں کہ ادھر ”ہم سب“ کی ایمیل آ گئی ہے یا نہیں۔ اگر ایمیل سپیم میں ہے تو اسے مارک کر دیں کہ وہ سپیم نہیں ہے تاکہ ہمارے آئندہ میسیج آپ تک پہنچ سکیں۔ اگر بھیجنے کے تین دن بعد تک مضمون شائع نہ ہو تو ”ہم سب“ کے پیج پر یا ادارتی ٹیم کے کسی بھی رکن کو میسیج بھیج کر اس کا سٹیٹس معلوم کر لیں۔

کئی مرتبہ کسی گمنام مصنف کا پہلا مضمون ہی وجاہت مسعود سیدھا کالم کی کیٹیگری میں لگا دیتے ہیں اور ساتھ تعریف کے ڈونگرے برساتے ہیں کہ کیا قیامت لکھا ہے۔ کئی مرتبہ ہم جیسے عامیوں کو عموماً یہ امر سمجھ نہیں آتا کہ اتنی تعریف کیوں مگر ان کی رائے کا احترام کر لیتے ہیں کہ بزرگ ہیں ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے۔

کالم ہماری اہم ترین کیٹیگری ہے۔ بلاگ اور کالم میں انیس بیس کا فرق ہی ہے۔ کالم میں عموماً وہ مصنف جاتے ہیں جن کی تحریر متاثر کن ہو خواہ وہ زیادہ نہ پڑھے جائیں (نوٹ کریں کہ زیادہ ویوز سے زیادہ اہمیت تحریر کی پختگی کو دی جا رہی ہے)۔ بلاگ کے معاملے میں میرا معیار نرم ہے اور وجاہت مسعود کا سخت۔ میں ایوریج تحریر کو بھی بلاگ میں شائع کرتا ہوں، گو ہفتے میں دو تین مرتبہ وجاہت صاحب سے مجھے سننا پڑتا ہے کہ میں سختی کیا کروں۔

وجاہت مسعود کی منتخب کردہ کیٹیگری کو تبدیل کرنے سے میں عموماً احتراز کرتا ہوں۔ ان کا معیار سخت ہے۔ اسی وجہ سے یہ بھی ہوتا ہے کہ میرا کسی اچھی کیٹیگری میں لگایا ہوا مضمون بھی وہ ”میرے مطابق“ میں بھیج دیتے ہیں جو ایک نسبتاً ہلکی کیٹیگری سمجھی جاتی ہے۔ کئی مرتبہ میں اس ترمیم کو مسترد کر دیتا ہوں اور جو وجوہات بیان کرتا ہوں، خواہ وہ وجاہت صاحب کی سمجھ میں آئیں نہ آئیں، وہ قبول کرتے ہیں۔

ہمارا اصول ہے کہ ٹیم کا ایک شخص ایک حتمی رائے دے دے تو دوسرے اسے قبول کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حتمی رائے دینے سے عموماً احتراز کیا جاتا ہے۔ ٹیم کا کوئی ممبر کوئی بلنڈر کر دے یا کسی ممبر کی رائے یا جذبات کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو عام طور پر اس معاملے کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی ٹیم ممبر کہے کہ نہیں اسے ویسے نہیں ایسے کرنا ہے۔ اس صورت میں شخصی احترام کے سبب ہی اس ممبر کی بات کو فائنل مانا جاتا ہے۔

ان معاملات میں ”ہم سب“ کی کور ٹیم کے علاوہ ہم کسی کی دخل اندازی کو شدت سے مسترد کرتے ہیں۔ ہم اپنی ویب سائٹ اپنی مرضی سے چلانے کے قائل ہیں۔ ”ہم سب“ کے (جنوری 2022 میں) پانچ ہزار سے زیادہ مصنفین اور لاکھوں خیر خواہ ہیں۔ روزمرہ کے معاملات پر ان سب سے مشورہ کرنے لگیں تو کام ٹھپ ہو جائے گا۔ خاص طور پر مضامین کی کیٹیگری منتخب کرنے کے معاملے میں ہم کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ ویسے بھی مجھ سمیت ہر مصنف کو اپنا مضمون سائٹ پر موجود دیگر تمام مضامین سے کہیں بہتر درجے کا ہی لگتا ہے۔ ضروری نہیں کہ پڑھنے والے اس رائے سے متفق ہوں۔

ہم خواتین اور اساتذہ کے مضامین پرائرٹی پر شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواتین کی تحریریں معاشرے کے ان مسائل کو اجاگر کرتی ہیں جنہیں ہمارا مردانہ غلبہ رکھنے والا معاشرہ ایک طویل مدت سے نظرانداز کرتا آیا ہے۔ ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ خواتین اپنے مسائل کو خود بیان کریں، بجائے اس کے کہ مرد حضرات، خواتین کو بتائیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور انہیں کیا کرنا چاہیے۔

اساتذہ براہ راست نوجوانوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان کی تحریر سے ہمیں نوجوانوں کی سوچ، ان کے مسائل اور مستقبل میں معاشرے کی سمت کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض خاتون یا استاد ہونے کی وجہ سے ان کے مضامین کو کالم میں لگایا جائے گا۔

ایک خاتون رائٹر ہیں۔ ان کے مضامین دو ڈھائی سال سے ”ہم سب“ پر شائع ہو رہے ہیں۔ ہمیشہ بلاگ میں شائع ہوتے تھے۔ کوئی چھے ماہ سے ان کے لکھنے کے انداز میں ایک نمایاں بہتری آئی ہے۔ ان کا اپنا منفرد سٹائل ڈیویلپ ہوا ہے۔ اب ان کا مضمون سیدھا کالم میں پبلش ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سوچنے کی بجائے کہ خاتون کی تحریر کی بجائے اس کی شکل دیکھ کر مضامین آنکھیں بند کر کے کالم میں شائع ہوتے ہیں، مصنف اپنے مضمون پر محنت کریں اور ہمیں یہ مت بتائیں کہ فلاں کا مضمون کس کیٹیگری میں شائع ہوتا ہے اور پیغام بھیجنے والے مصنف کا اس سے بہتر ہے، اس لئے وہیں یا اس سے بہتر کیٹیگری میں شائع ہونا چاہیے۔ اگر کوئی مضمون بہت زیادہ اچھا ہے تو اسے اچھی کیٹیگری میں شائع کرنے میں خود ”ہم سب“ کا فائدہ ہے۔

ہم اندازِ تحریر کی بات کریں تو کتے پر مضمون کو بطور مثال پیش کر سکتے ہیں۔ یہ نہایت عام سا موضوع ہے، بچہ ابتدائی جماعتوں سے کتے پر چند لائنیں لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن پطرس بخاری یا مشتاق احمد یوسفی کے ہتھے یہ عام سا گھسا پٹا موضوع چڑھے تو ”کتے“ اور ”سیزر، ماتاہری اور مرزا“ جیسا اردو ادب کا بے مثال شاہکار وجود میں آتا ہے۔ ایک اچھا مصنف اپنے اندازِ بیان سے ایک عام سے موضوع کو بھی خاص تر بنا سکتا ہے۔

”ہم سب“ کی پالیسی کے بارے میں پڑھنے والوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے میں چار چھے مہینے لگنا عام بات ہے۔ ٹیم کے مختلف ممبر آپس میں اختلاف کرتے رہتے ہیں اور اختلاف ختم ہوتے ہوتے اتنا وقت لگ جاتا ہے۔ یوں عجلت میں کوئی فیصلہ کرنے سے ہم بچ جاتے ہیں۔

بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن پر ہماری ٹیم کی آپسی بحث نتیجہ خیز نہیں ہو رہی ہوتی لیکن پڑھنے والوں کا اعتراض سامنے آ رہا ہوتا ہے، تو اس صورت میں ٹیم ممبر اپنے اختلاف یا اتفاق کا اظہار مضمون لکھ کر بھی کرتے ہیں۔ تصاویر کے ایشو پر یہی ہوا تھا۔ یہ اختلاف اور محبت ہی ”ہم سب“ کی طاقت ہے۔ تصاویر کی بحث چھے آٹھ مہینے چلنے کے بعد موجودہ پالیسی بنائی گئی تھی، گو وجاہت مسعود صاحب کی رائے کو مسترد کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود خوش دلی سے اکثریت کا فیصلہ تسلیم کیا۔

یہ وہ چیزیں ہیں جو میرے ذہن میں ہیں اور جن کے مطابق میں کام کرتا ہوں۔ ممکن ہے کہ وجاہت مسعود یا دیگر ٹیم ممبر میرے ان خیالات سے اختلاف رکھتے ہوں۔ ایسا ہے تو وہ اپنے اختلافات کو خود بیان کر دیں گے۔ اختلاف اور باہمی اخلاص ہی ”ہم سب“ کی طاقت ہے۔

پہلی تاریخ اشاعت: Feb 21, 2019

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar